سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
36. باب فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ }
باب: آیت کریمہ: «وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4112
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَبْهَانُ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ مَيْمُونَةُ، فَأَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْتَجِبَا مِنْهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ؟"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لِأَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً أَلَا تَرَى إِلَى اعْتِدَادِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، قَدْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ عِنْدَهُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، آپ کے پاس ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں کہ اتنے میں ابن ام مکتوم آئے، یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں ان سے پردہ کرو“ تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ تو وہ ہم کو دیکھ سکتے ہیں، نہ پہچان سکتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اندھی ہو؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتی ہو؟“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے لیے خاص تھا، کیا تمہارے سامنے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے عدت گزارنے کا واقعہ نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: ”تم ابن ام مکتوم کے پاس عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں اپنے کپڑے تم ان کے پاس اتار سکتی ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 29 (2778)، (تحفة الأشراف: 18222)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/296) (ضعیف)» (سند میں نبہان مولی ام سلمہ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3116)
أخرجه الترمذي (2778 وسنده حسن) نبھان مولٰي أم سلمة: وثقه الذھبي في الكاشف و الترمذي و ابن حبان و الحاكم بتصحيح حديثه فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4112 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4112
فوائد ومسائل:
اگر یہ روایت حسن ہے، جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے کہا ہے، تو پھر اس کی یہ توجیہ صحیح ہے جو امام ابوداودؒنے فرمائی ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم سے پردے کا جو حکم دیا گیا تھا، وہ صرف ازواج مطہرات رضی اللہ کے لئے خاص تھا،عام مسلمان خواتین کے لئے یہ ضروری نہیں ہے اور بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ہی ضعیف ہے، بہر حال دونوں صورتوں میں یہ روایت قابل حجت نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4112
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2778
´عورتیں مرد سے پردہ کریں اس کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں اور میمونہ رضی الله عنہا بھی موجود تھیں، اسی دوران کہ ہم دونوں آپ کے پاس بیٹھی تھیں، عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور آپ کے پاس پہنچ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمیں پردے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں ان سے پردہ کرو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں؟ اور نہ ہمیں پہچان سکتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2778]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی فتنہ کو اپنا سر ابھارنے کے لیے مردوعورت میں سے کسی کا بھی ایک دوسرے کو دیکھنا کافی ہو گا،
اب جب کہ تم دونوں انہیں دیکھ رہی ہو اس لیے فتنہ سے بچنے کے لے پردہ ضروری ہے۔
نوٹ:
(سند میں ”نبھان“ مجہول راوی ہے،
نیز یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ”میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھتی رہی ...“ کے مخالف ہے،
الإرواء: 1806)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2778