سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
33. باب فِيمَا تُبْدِي الْمَرْأَةُ مِنْ زِينَتِهَا
باب: عورت اپنی زینت اور سنگار میں سے کس قدر ظاہر کر سکتی ہے؟
حدیث نمبر: 4104
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْطَاكِيُّ، وَمُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ يَعْقُوبُ بْنُ دُرَيْكٍ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" يَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا، وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا مُرْسَلٌ خَالِدُ بْنُ دُرَيْكٍ لَمْ يُدْرِكْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہ باریک کپڑا پہنے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا اور فرمایا: ”اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو درست نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت مرسل ہے خالد بن دریک نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہیں پایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 16062) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الوليد بن مسلم عنعن وسعيدبن بشير: ضعيف (تقدم: 2580) حدّث عن قتادة بمناكير،انظرتهذيب التهذيب(10/4) وقتادة عنعن وابن دريك عن عائشة منقطع انظر تحفة الأشراف (11/ 392 قبل حديث 16062)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 146
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4104 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4104
فوائد ومسائل:
بعض علماء اس حدیث سے عورت کے لئے چہرہ ننگا رکھنے کا اثبات کرتے ہیں، جو صحیح نہیں۔
کیونکہ احتمال ہے کہ یہ ارشاد حجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا ہو، نیز یہ روایت مرسل ہے، جیسے کہ امام ابو داودؒ نے واضح فرمایا ہے اور اس کا ایک راوی سعید بن بشیرازی ضعیف ہے، دیکھیے۔
۔
نیز اگلی (حدیث 4106) میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ اپنے پاوں چھپانے کے لئے مضطرب ہوتی تھیں اور حدیث 4118 میں آرہا ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ نے بھی اپنی چادر کا پلو لمبا کرنے کا پوچھا تو آپ ؐ نے ایک پالشت بتایا اس پر انہوں نے عذرکیا کہ اس طرح تو پاون ننگے ہوں گے۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
جب امت کی یہ مائیں کو تمام عورتوں کے لئے انتہائی عظیم قابل قدر نمونہ ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ پاوں ننگے ہونے سے پریشان ہوتی ہیں تو کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ چہرہ ننگے کرنے کو جائز سمجھتی ہوں گی اور کسی کے لئے (عورت ہو یا مرد) اس کا چہرہ ہی منبع حسن وقبح ہوتا ہے، جبکہ امت کے مردوں کو حکم دیا گیا کہ ضرورت کی چیز طلب کرنی ہو تو منہ اٹھائے گھروں کے اندر گھس جایا کرو۔
بلکہ اوٹ کی پیچھے سے طلب کیا کرو، کئی صحیح اور صریح احادیث میں غیر محرم کو اجنبی عورت کے ہاں جانا جائز نہیں اور شوہر کے رشتہ دار مردوں کا گھر میں بے باکانہ اندر آجانا بھی جائز نہیں، بلکہ مرد کے رشتہ دار دیوار اور جیٹھ وغیرہ عورت کے لئے موت ہیں۔
(مسئلہ حجاب اور چہرے کے پردے کی تفصیل اورشافی بحث تفسیر اضواءالبیان، ازعلامہ محمد امین شنقیطی ؒسورءاحزاب میں ملاخطہ ہو۔
)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4104