سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
1. باب مَا يَقُولُ إِذَا لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا
باب: نیا لباس پہنے تو کون سی دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 4020
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَجَدَّ ثَوْبًا سَمَّاهُ بِاسْمِهِ إِمَّا قَمِيصًا أَوْ عِمَامَةً ثُمَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ"، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: فَكَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَبِسَ أَحَدُهُمْ ثَوْبًا جَدِيدًا، قِيلَ لَهُ: تُبْلَى وَيُخْلِفُ اللَّهُ تَعَالَى.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو قمیص یا عمامہ (کہہ کر) اس کپڑے کا نام لیتے پھر فرماتے: «اللهم لك الحمد أنت كسوتنيه أسألك من خيره وخير ما صنع له وأعوذ بك من شره وشر ما صنع له» ”اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں تو نے ہی مجھے پہنایا ہے، میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔ ابونضرہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اس سے کہا جاتا: تو اسے پرانا کرے اور اللہ تجھے اس کی جگہ دوسرا کپڑا عطا کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 29 (1767)، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (310)، (تحفة الأشراف: 4326)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/30، 50) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (4342)
أخرجه الترمذي (1767 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4020 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4020
فوائد ومسائل:
1۔
نیا کپڑا پہننے پر مذکورہ بالا دعا پڑھنا مسنون اور مستحب ہے، اسی طرح کپڑا پہننے والےکوبھی دعا دی جائے۔
2: کپڑا ہو یاکوئی اورچیز۔
۔
۔
۔
۔
۔
ہرایک میں بھلائی اور برائی کے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔
کپڑے میں بھلائی یہ ہے کہ انسان کے لئےستر اور زینت ہو موسم کے مطابق مفید ہو۔
انسان اسے پہن کر خیر کے کاموں میں مشغول ہو تو یہ اس کی بھلائی ہے اور اس کے برخلاف اس کی برائی ہے۔
مزید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان اسے پہن کر دکھلاوا کرے اور اترتا پھیرے تو اور بھی قبیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4020