سنن ابي داود
كِتَاب الْحَمَّامِ
کتاب: حمامات (اجتماعی غسل خانوں) سے متعلق مسائل
1. باب الدُّخُولِ فِي الْحَمَّامِ
باب: حمام میں جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4010
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ جَمِيعًا، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، قَالَ: دَخَلَ نِسْوَةٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: مِمَّنْ أَنْتُنَّ؟ قُلْنَ: مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، قَالَتْ: لَعَلَّكُنَّ مِنَ الْكُورَةِ الَّتِي تَدْخُلُ نِسَاؤُهَا الْحَمَّامَاتِ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، قَالَتْ: أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنَ امْرَأَةٍ تَخْلَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِهَا إِلَّا هَتَكَتْ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ تَعَالَى"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حَدِيثُ جَرِيرٍ وَهُوَ أَتَمُّ، وَلَمْ يَذْكُرْ جَرِيرٌ أَبَا الْمَلِيحِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوالملیح کہتے ہیں اہل شام کی کچھ عورتیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں تو انہوں نے ان سے پوچھا: تم کہاں کی ہو؟ ان سب نے کہا: ہم اہل شام سے تعلق رکھتی ہیں، یہ سن کر وہ بولیں: شاید تم اس علاقہ کی ہو جہاں کی عورتیں بھی غسل خانوں میں داخل ہوتی ہیں، ان سب نے کہا: ہاں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو بھی عورت اپنے کپڑے اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور اتارتی ہے تو وہ اپنے پردے کو جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے پھاڑ دیتی ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ جریر کی روایت ہے جو زیادہ کامل ہے اور جریر نے ابوالملیح کا ذکر نہیں کیا ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «وحدیث محمد بن قدامة قد تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17804،16090)، وقد أخرجہ: حدیث محمد بن مثنی: سنن الترمذی/الأدب 43 (2803)، سنن ابن ماجہ/الأدب 38 (3750)، مسند احمد (6/41، 199)، سنن الدارمی/الاستئذان 23 (2693) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (4475)
أخرجه الترمذي (2803 وسنده حسن) ورواه ابن ماجه (3750 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4010 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4010
فوائد ومسائل:
1: مسلمان عورت کا اپنے گھر سے باہر پردے کے بارے میں غفلت برتنا حرام ہے اس لئے ان کا عوامی غسل خانوں میں جانا حرام ہے۔
اسی پر موجودی دور کی ایک مصیبت اور فتنہ بیوٹی پارلروں کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
2: عورت اور اللہ کے مابین پردی پھٹ جانے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی عزت وکرامت کو از خود دائو پر لگا دیتی ہے اور رسوا اور ذلیل ہونے سے کسی طرح نہیں بچ سکتی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4010
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3750
´حمام میں داخل ہونے کا بیان۔`
ابوملیح ہذلی سے روایت ہے کہ حمص کی کچھ عورتوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ شاید تم ان عورتوں میں سے ہو جو حمام میں جاتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جس عورت نے اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ اپنے کپڑے اتارے تو اس نے اس پردہ کو پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3750]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حمام کا لفظ حمیم (گرم پانی)
سے بنایا گیا ہے کیونکہ وہاں گرم پانی سے نہانے کا انتظام ہوتا ہے۔
بعد میں نہانے کی ہر جگہ کو حمام کہنے لگے، خواہ وہاں گرم پانی ہو یا ٹھنڈا۔
(2)
حمام میں نہلانے کے لیے خادم موجود ہوتے تھے وہاں جانے سے اس لیے منع کیا گیا کہ لوگ ان خادموں سے ستر پوشی کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
اگر ستر پوشی کا خیال رکھا جائے تو باقی جسم کو ملنے اور دھونے میں خادموں سے مدد لینا جائز ہے۔
(3)
عورت کا پورا جسم ستر ہے، اس لیے اس کو منع کر دیا گیا کہ حمام میں کسی سے مدد لے۔
اس کے لیے گھر ہی میں نہا نا بہتر ہے۔
(4)
اگر عورت گھر میں گرم پانی سے نہانے کا انتظام کر لے اور کسی سے مدد لیے بغیر نہا لے یا خاوند سے مدد لے لے تو کوئی حرج نہیں۔
(5)
جہاں مرد ننگے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے نہاتے ہوں، جیسے غیر مسلم ممالک میں رواج ہے، وہاں مردوں کو بھی ان کے ساتھ نہانا منع ہے کیونکہ جس طرح اپنے ستر کو چھپانا فرض ہے، اسی طرح کسی کے ستر کو دیکھنا بھی منع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3750