Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
124. بَابُ مَا يَأْكُلُ مِنَ الْبُدْنِ وَمَا يُتَصَدَّقُ:
باب: قربانی کے جانوروں میں سے کیا کھائیں اور کیا خیرات کریں۔
حدیث نمبر: 1719
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" كُنَّا لَا نَأْكُلُ مِنْ لُحُومِ بُدْنِنَا فَوْقَ ثَلَاثِ مِنًى، فَرَخَّصَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كُلُوا وَتَزَوَّدُوا، فَأَكَلْنَا وَتَزَوَّدْنَا"، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَقَالَ حَتَّى جِئْنَا الْمَدِينَةَ، قَالَ: لَا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی قربانی کا گوشت منیٰ کے بعد تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت دے دی اور فرمایا کہ کھاؤ بھی اور توشہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ، چنانچہ ہم نے کھایا اور ساتھ بھی لائے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے، انہوں نے کہا نہیں ایسا نہیں فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1719 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1719  
حدیث حاشیہ:
یعنی جابر ؓ نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے مدینہ پہنچنے تک اس گوشت کو توشہ کے طور پررکھا، لیکن مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عطاءنے نہیں کے بدلے ہاں کہا، شاید عطا بھول گئے ہوں پہلے نہیں کہاہو پھر یاد آیا تو ہاں کہنے لگے۔
اس حدیث سے وہ حدیث منسوخ ہے جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1719   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1719  
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح نے ابن جریج کے پوچھنے پر فرمایا تھا کہ ہاں حضرت جابر ؓ نے فرمایا تھا:
ہاں، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔
شاید حضرت عطاء بھول گئے ہوں، پہلے نہیں کہا ہو، پھر یاد آیا تو ہاں کہنے لگے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ حدیث منسوخ ہے جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔
دراصل ابتدائے اسلام میں کچھ لوگ مدینہ طیبہ کے مضافات سے شہر آئے، جبکہ عیدالاضحیٰ کا دن تھا۔
وہ بہت غریب تھے۔
ان کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔
انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم قربانی کا گوشت صرف تین دن تک کھا سکتے ہو اور جو باقی بچے اسے صدقہ کر دو۔
جب یہ سال گزر گیا تو لوگوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! لوگ قربانی کی کھالوں سے مشکیزے بنا کر ان میں چربی وغیرہ رکھا کرتے تھے۔
آپ ﷺنے فرمایا:
اب کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
میں نے تو پچھلے سال غریب لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو دیہاتوں سے آئے تھے تاکہ ان کے لیے وافر مقدار میں گوشت بچ رہے۔
اب تمہیں اجازت ہے کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، صدقہ کرو اور جمع کر کے رکھو۔
(صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5103(1971)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1719