سنن ابي داود
كِتَاب الْحُرُوفِ وَالْقِرَاءَاتِ
کتاب: قرآن کریم کی بابت لہجوں اور قراتوں کا بیان
1. باب
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3987
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو النَّمَرِيَّ، أَخْبَرَنَا هَارُونُ، أَخْبَرَنِي أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ، عَنْ عَطِّيَةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ عِلِّيِّينَ لَيُشْرِفُ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ فَتُضِيءُ الْجَنَّةُ لِوَجْهِهِ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ، قَالَ: وَهَكَذَا جَاءَ الْحَدِيثُ دُرِّيٌّ مَرْفُوعَةٌ الدَّالُ لَا تُهْمَزُ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ لَمِنْهُمْ وَأَنْعَمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیین والوں میں سے ایک شخص جنتیوں کو جھانکے گا تو جنت اس کے چہرے کی وجہ سے چمک اٹھے گی گویا وہ موتی سا جھلملاتا ہوا ستارہ ہے“۔ راوی کہتے ہیں: اسی طرح «دري» دال کے پیش اور یا کی تشدید کے ساتھ حدیث وارد ہے دال کے زیر اور ہمزہ کے ساتھ نہیں اور آپ نے فرمایا ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما بھی انہیں میں سے ہیں بلکہ وہ دونوں ان سے بھی بہتر ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4190)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 14 (3658)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (96)، مسند احمد (3/50، 61) (ضعیف)» (دوسرے الفاظ سے یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف وصح بلفظ آخر
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
قال ابي رحمه الله: وله شاھد حسن عند الطبراني في الاوسط (6/ 7 ح 6003 وسنده حسن، نسخه اخريٰ: ح 6006) قلت يعني معاذ: وله شاھد حسن عند البزار (البحر الزخار: 17/ 84 ح 9619 وسنده حسن) وامالي ابن منده (6) ولفظه: ’’إن الرجل من أهل الجنة ليشرف علي أهل الجنة كأنه كوكب دري، وإن أبا بكر، وعمر منهم، وأنعما‘‘
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3987 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3987
فوائد ومسائل:
سورہ نور کی آیت کریمہ (عربی میں لکھا ہے) (النور:35) میں یہ لفط دری کی معروف قراءت دال کے ضمہ را اور یا کی شد کے ساتھ ہے۔
جبکہ حمزہ اور ابوبکر اسے دال کے ضمہ اور ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ابوعمر اور کسائی دال کےکسرہ اور ہمزہ کےساتھ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3987
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث96
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلند درجے والوں کو (جنت میں) نیچے درجہ والے دیکھیں گے جس طرح چمکتا ہوا ستارہ آسمان کی بلندیوں میں دیکھا جاتا ہے، اور ابوبکرو عمر بھی انہیں میں سے ہیں، اور ان میں سب سے فائق و برتر ہیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 96]
اردو حاشہ:
(1)
اس روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت کے کچھ حصے کا حسن درجے کا شاھد ملتا ہے، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کے اعتبار سے اسے صحیح قرار دیا، دیکھئے: (الروض النضير في ترتيب و تخريج معجم الطبراني الصغير، حديث: 970)
لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔
(2)
جنت کے درجات کا فرق، کوئی معمولی فرق نہیں، اس لیے مومن کو بلند سے بلند درجات کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت اور کوشش کرنی چاہیے۔
(3)
افق میں طلوع ہونے والا ستارہ اگرچہ دیکھنے میں زیادہ بلند محسوس نہیں ہوتا، لیکن درحقیقت بہت بلندی پر ہوتا ہے۔
جنت کے مختلف درجات میں مذکور نعمتیں سرسری نظر میں ایک دوسری سے بہت زیادہ مختلف محسوس نہیں ہوتیں، مگر حقیقت میں ان کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہے کہ اندازہ بھی نہیں لگا جا سکتا۔
(4)
آسمان میں چمکنے والا ستارہ زمین سے بہت زیادہ دور ہوتا ہے۔
اس طرح اہل جنت کے درجات کا فرق بھی بہت زیادہ ہے۔
(5)
اَنْعَمَا کا ایک مفہوم زیادہ ہونا ہے، یعنی شیخین رضی اللہ عنہما کا درجہ بہت زیادہ ہے۔
دوسرا یہ لفظ نعمت سے ماخوذ بھی ہو سکتا ہے۔
اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ حضرات بہت نعمتوں میں ہیں اور اللہ کے بے شمار انعامات سے سرفراز ہیں۔
(6)
اس حدیث میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بلند درجات کی تصریح ہے۔
اس طرح اس حدیث میں ان دونوں جلیل القدر صحابیوں کے لیے جنت کی واضح خوشخبری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 96
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:772
772- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”(جنت میں) بلند درجات والے لوگ ”علیین“ کے لوگوں کو یوں دیکھیں گے، جس طرح تم افق میں چمکتے ہوئے ستارے کودیکھتے ہو اور ابوبکر و عمر ان میں شامل ہیں۔ اور یہ دونوں بہت اچھے ہیں۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:772]
فائدہ:
یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں بلند درجات والوں کو جو ان کے نیچے ہوں گے ایسے ہی دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے افق پر طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو اور ابوبکر و عمر دونوں انھی میں سے ہوں گے اور کیا ہی خوب ہیں دونوں“۔ [سنن الترمذي 3658 صحيح]
اس حدیث میں جنت کے درجات بیان ہوئے ہیں نیز سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 773
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7144
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اہل جنت اپنے سے اوپر بالا خانہ والوں کو اس طرح دیکھیں گے، جس طرح تم اس روشن ستارے کو دیکھتے ہو۔جودور کے مشرقی یا مغربی کنارے میں جارہا ہوتا ہے، اس فرق وامتیاز کی بنا پر جوان میں باہمی ہوگا۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!وہ انبیاء کے مقامات ہوں گے دوسرے لوگ ان تک نہ پہنچ سکیں گے، آپ نے فرمایا:" کیوں نہیں اس ذات کی قسم، جس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7144]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الغابر:
چلنے والا،
جانے والا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7144
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3256
3256. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اہل جنت بالائی منزل والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح لوگ آسمان کے مشرقی یا مغربی کنارے پر چمکتا ہوا ستارہ دیکھتے ہیں کیونکہ اہل جنت کا آپس میں فرق مراتب ضرور ہو گا۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ تو انبیاء ؑ کے مقام ہیں، ان کے مراتب پر کوئی اور نہیں پہنچ سکتا؟ آپ نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی (وہ یقیناًان مراتب کو حاصل کریں گے۔“) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3256]
حدیث حاشیہ:
جو لوگ دنیا میں انبیائی طریق کار پر کاربند رہے اور اسلام قبول کرکے اعمال صالحہ میں زندگی گزاری، یہ محل ان ہی کے ہوں گے۔
(اللهم اجعلنا منهم۔
آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3256
3256. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اہل جنت بالائی منزل والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح لوگ آسمان کے مشرقی یا مغربی کنارے پر چمکتا ہوا ستارہ دیکھتے ہیں کیونکہ اہل جنت کا آپس میں فرق مراتب ضرور ہو گا۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ تو انبیاء ؑ کے مقام ہیں، ان کے مراتب پر کوئی اور نہیں پہنچ سکتا؟ آپ نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی (وہ یقیناًان مراتب کو حاصل کریں گے۔“) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3256]
حدیث حاشیہ:
1۔
تمام امتوں کے مومن جنت میں ہوں گے لیکن بلند منازل صرف اس امت مرحومہ کے اہل ایمان کو ملیں گی کیونکہ تمام رسولوں کی تصدیق صرف انھی سے متصور ہو سکتی ہے جامع ترمذی کی روایت میں ہے۔
کہ حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمر ؓان لوگوں میں سے ہوں گےحضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جنت میں بلند منازل ہوں گی جن کا بیرون اندر سے اور اندرون باہر سے دیکھا جائے گا۔
“ ایک دیہاتی نے کہا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ منازل کن لوگوں کی ہوں گی فرمایا:
”یہ منازل ان لوگوں کے لیے ہیں جو نرم بات کرتے ہیں۔
ہمیشہ روزے سے رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں جبکہ تمام لوگ سورہے ہوتے ہیں“ (جامع الترمذي، البر و الصلة، حدیث: 1984)
2۔
واضح رہے کہ جنت میں تمام اہل ایمان اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کرنے والے ہی ہوں گے لیکن یہ لوگ مذکورہ صفت کے باعث ان سے ممتاز اور نمایاں ہوں گے کیونکہ انھوں نےایمان وتصدیق کا حق ادا کیا ہوگا۔
(عمدة القاري: 610/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3256