سنن ابي داود
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
17. باب فِي تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ
باب: تعویذ لٹکانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3883
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ"، قَالَتْ: قُلْتُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا، وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ، وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي، فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”جھاڑ پھونک (منتر) ۱؎ گنڈا (تعویذ) اور تولہ ۲؎ شرک ہیں“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «ذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» ”لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 39 (3530)، (تحفة الأشراف: 9643)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/381) (ضعیف) (الصحیحة: 2972، وتراجع الألباني: 142)»
وضاحت: ۱؎: جھاڑ پھونک اور منتر سے مراد وہ منتر ہے جو عربی میں نہ ہو، اور جس کا معنی و مفہوم بھی واضح نہ ہو، لیکن اگر اس کا مفہوم سمجھ میں آئے، اور وہ اللہ کے ذکر پر مشتمل ہو تو مستحب ہے، جو لوگ عربی زبان نہ جانتے ہوں ان کو دعاؤں کے سلسلے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے، اور اس سلسلے میں اسلامی آداب کا لحاظ ضروری ہے۔
۲؎: ایک قسم کا جادو ہے جسے دھاگہ یا کاغذ میں عورت مرد کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
ابن ماجه (3530)
الأعمش عنعن
وللحديث شواهد ضعيفة
و للحديث طريق صحيح مختصر في المستدرك (217/4 ح 7505،اتحاف المھرة 10/ 453) عن قيس بن السكن الأسدي قال: ”دخل عبد اللّٰه بن مسعود رضي اللّٰه عنه علي امرأة فرأي عليھا حرزًا من الحمرة فقطعه قطعًا عنيفًا ثم قال: إن آل عبد اللّٰه عن الشرك أغنياء،و قال: كان مما حفظنا عن النبي ﷺ أن الرقي والتمائم والتولية من الشرك‘‘ و صححه الحاكم ووافقه الذهبي وسنده صحيح
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 139
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3883 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3883
فوائد ومسائل:
1) رقیة یعنی دم جھاڑ پھونک جو کفریہ یا شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں کرنا کرانا حرام اور شرک ہے، البتہ قرآن کریم کی آیات اور مسنون دُعاءوں سے دم کرنا سنت اور باعثِ اجر ہے۔
نیز ایسے کلمات جن میں شرک اور کفر کا کوئی شک شبہ نہ ہو اور تجربے سے مفید ثابت ہوئے ہوں ان سے دم کرنا جائز ہے۔
2) یعنی وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظرِبد سے بچانے کے لیئے پہناتے تھے، تممیہ اور تمائم کہلاتے تھے، اس میں وہ کو ڑیاں، منکے، پتھر، لوہا، چھلے، انگوٹھیاں، لکڑی اور دھاگے وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں جو جاہل لوگ بغرضِ علاج پہنتے پہناتے تھے۔
اس میں وہ تعویز بھی آتے ہیں جو کفریہ، شرکیہ اور غیر شرعی تحریروں پر مشتمل ہوں، لیکن ایسے تعویزات جو آیاتِ قرآنیہ اور مسنون دُعائوں پر مشتمل ہوں، اُنھیں تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے۔
اس پاکیزہ کلام کو یہ برا نام دینا ناروا غلو ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم یا دُعائیں لکھ کر لٹکانا رسول اللہ ﷺسے کسی طرح ثابت نہیں، حالانکہ اس دور میں کاغذ، قلم، سیاہی اور کاتب سبھی مہیا تھے اور مریض بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتے تھے، مگر آپنے کبھی کسی کو یہ طریقہ علاج ارشاد نہیں فرمایا۔
آپﷺ نے اُنھیں دم کیا یا مختلف اذکار بتائے یا کوئی مادی علاج تجویز فرما دیا۔
آیات یا دُعائوں کو بطور تعویز لٹکانا بعد کی بات اور اختلافی مسئلہ ہے۔
علمائے سنت کا ایک گروہ اس کا قائل و فاعل رہا ہے اور دوسرا انکاری (ملاحظہ ہو آئیندہ حدیث3893) علمائے راسخین کی اور ہماری ترجیح یہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔
مگر کلام اللہ یا مسنون دُعائوں کو تمیمہ جیسا برا نام دینا بڑا ظلم ہے۔
3) محبت کے ٹوٹکے، تعویز اور گنڈے جادو کی قسم ہیں اور شرک ہیں۔
4) حضرت عبداللہ بن مسعود ؑ کی بات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شرکیہ یا کفریہ طریقوں سے لوگوں کو جو فائدہ ہوتا ہے وہ درحقیقت شیطانی اثر ہوتا ہے۔
5) واجب یہ ہے کہ ہر مسلمان ایمان و یقین کے ساتھ مسنون اعمال اختیار کرے اور یقین رکھے کہ جلد یا بدیر شفاء ہو جائے گی۔
اگر نہ ہو تو دقت نظر سے اپنا جائزہ لے کہ دُعا قبول نہ ہونے کا کیا سبب ہے اور پھر صبر سے بھی کام لے اور اللہ کے ہاں اجر اور رفع درجات کا اُمید وار رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3883
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3530
´تعویذ لٹکانے کا بیان۔`
زینب زوجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک بڑھیا آیا کرتی تھیں، وہ «حمرہ» ۱؎ کا دم کرتی تھیں، ہمارے پاس بڑے پایوں کی ایک چارپائی تھی، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب گھر آتے تو کھنکھارتے اور آواز دیتے، ایک دن وہ گھر کے اندر آئے جب اس بڑھیا نے ان کی آواز سنی تو ان سے پردہ کر لیا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آ کر میری ایک جانب بیٹھ گئے اور مجھے چھوا تو ان کا ہاتھ ایک گنڈے سے جا لگا، پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ سرخ بادے ( «حمرہ») کے لیے دم کیا ہوا گنڈا ہے، یہ سن کر انہوں نے اسے کھینچا اور کاٹ کر پھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3530]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مریض پرقرآن کی آیات یا مسنون دعایئں پڑھ کردم کرنا درست ہے۔
جبکہ شرکیہ دم حرام ہے۔
(2)
عورتیں عورتوں کو دم کرسکتی ہیں۔
(3)
مرد کو اپنے گھر میں آتے وقت بھی آواز دے کر یا کھانس کر یا سلام کرکے آناچاہیے۔
تاکہ اگر کوئی غیر محرم عورت کسی کام سے آئی ہوئی ہو تو وہ پردہ کرلے۔
(4)
بوڑھی عورتوں کو بھی پردہ کرنا چاہیے۔
لیکن زیادہ بوڑھی عورتیں جن کی جسمانی کشش ختم ہوچکی ہو اگر انھوں نے زیب وزینت نہ کی ہوئی ہوتو ان کے لئے پردہ نہ کرن اجائز ہے۔ (سورہ نور: 60)
(5)
دھاگے پر دم کرکے گلےمیں ڈالنا یا بازو اور کمر وغیرہ پر باندھنا منع ہے۔
(6)
گلے میں پڑا ہوادھاگا یا تعویز وغیرہ اتار کر پھینک دینا مقدس کلام کی توہین نہیں بلکہ غلط کام پر ناراضی کا اظہار ہے۔
(7 تولہ۔ (حب کا عمل)
ایک قسم کا جادو ٹونہ ہے۔
جاہلیت میں عربوں کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں خاوند کے دل میں بیوی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
(8)
خاوند کے دل میں محبت پیدا کرنے کےلئے ٹوٹے ٹونکوں کی بجائے اس کی اطاعت اس کا احترام اس کی خدمت اور اس سے محبت کا اظہار بہتر عمل ہے۔
(9)
بعض اوقات شرکیہ ٹوٹکوں سے بظا ہر فائدہ معلوم ہوتا ہے۔
یہ اصل میں شیطانی اثر ہوتا ہے۔
تاکہ لوگوں کا اعتقاد ایسے کاموں پر پختہ ہوجائے۔
(10)
صاف پانی آنکھ کی صفائی کےلئے اچھی چیز ہے۔
تاہم آنکھ میں چھینٹے زور س نہیں مارنے چاہیں۔
(11)
نظر بد کا اثر بھی شیطانی اثر ہے۔
جس کاعلاج اللہ سے دعا اور مسنون دم ہے۔
(12)
مذکورہ روایت کو ہمارےمحقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اس کے شواہد وغیرہ ذکر کیے ہیں۔
نیز اس پر خاصی طویل بحث کی ہے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے ک باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللہ اعلم۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے۔ (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 6 /110، 113)
والصحیحة للأ بانی رقم: 331، وسنن ان ماجة بتحقیق محمود محمد محمود حسن نصار، رقم: 3530)
(12)
خمرہ ایک جلدی بیماری ہے۔
جس میں جائے مرض کے سرخ ہونے کے علاوہ بخار تیز ہوجاتا ہے۔
بعض حضرات نے اس سے خسرہ وغیرہ کی بیماری مراد لی ہے۔
واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3530