Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
10. باب فِي التِّرْيَاقِ
باب: تریاق کا بیان۔
حدیث نمبر: 3869
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ يَزِيدَ الْمُعَافِرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ إِنْ أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ قَوْمٌ يَعْنِي التِّرْيَاقَ.
عبدالرحمٰن بن رافع تنوخی کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے: مجھے پرواہ نہیں جو بھی میرا حال ہو اگر میں تریاق پیوں یا تعویذ گنڈا لٹکاؤں یا اپنی طرف سے شعر کہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا، کچھ لوگوں نے تریاق پینے کی رخصت دی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف: 8878)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/167، 223) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عبد الرحمن تنوخی ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد الرحمٰن بن رافع التنوخي: ضعيف (تقريب التهذيب: 3856)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 138

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3869 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3869  
فوائد ومسائل:
1) یہ روایت سنداََ ضعیف ہے۔
تاہم افراد اُمت کے لیئے مسلمان متقی طبیب کے مشورے سے محض جان بچانے کے لیئےبشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہوتو تریاق جیسی مشکوک چیزوں کا استعمال مباح ہے۔

2) تمیمہہ کو ڑیوں، درندوں کے ناخنوں، انکی ہڈیوں وغیرہ کو کہا جاتاہے؛ جو جسم پر لٹکائی جاتی ہیں (سندھی) کوڑیوں وغیرہ کو لٹکانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ آفات اور بیماریوں کو دفع کرتی ہیں۔
یہ اعتقاد شرک پر مبنی ہے (خطابی) قاضی ابو بکر العربی نے ترمذی کی شرح میں کہا ہے کہ قرآن مجید (یا اس کی کو ئی آئیت) لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں۔
سنت قرآن کا پڑھنا ہے اور یہ اللہ تعالی کا ذکر ہے لٹکانا نہ سنت ہے، نہ اسے ذکر ہی کہا جاسکتا ہے۔
جبک ہ علامہ سندھی اور علامہ خطابی وغیرہ قرآن یا اسمائے حسنیٰ وغیرہ کو منع کے حکم میں شامل نہیں سمجھتے۔
علامہ خطابی کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی آیات (یا ادعیہ) کے ذریعےسے استعاذہ در حقیقت اللہ ہی سے استعاذہ ہے۔
ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں نےکسی ہار یا قلادہ کے اندر تعویذ لٹکانے سے منع کیا ہے تو اس وجہ سے کہ ایسے تعویذ بعض اوقات عربی کی بجائے دوسری زبانوں میں لکھے ہو تے ہیں جن کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور خطرہ ہے کہ ان میں جا دو وغیرہ نہ ہو۔
تفصیل کے لیئے دیکھئے (عون المعبود، کتاب الطب، باب في التریاق) قرآن مجید کی رُو سے شعر کہنا پیغمر کی شان نہیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور نہیں سکھا یا ہم نے ان کو شعر کہنا اور یہ ان کے لائق نہیں کسی۔
اور کا ایسا شعر نقل کرنا جو حق کا ترجمان ہو یا سچائی پر مبنی ہو یا دفاعِ اسلام کے لیئے کہے گئے اشعار سننا الگ بات ہے اور اس پر شعر گو ئی کا اطلاق نہیں ہو تا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3869