سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
30. باب فِي أَكْلِ حَشَرَاتِ الأَرْضِ
باب: زمین پر موجود کیڑوں مکوڑوں کے کھانے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3799
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ نُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَسُئِلَ عَنْ أَكْلِ الْقُنْفُذِ؟، فَتَلَا: قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا سورة الأنعام آية 145، قَالَ: قَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: خَبِيثَةٌ مِنَ الْخَبَائِثِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنْ كَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا، فَهُوَ كَمَا قَالَ مَا لَمْ نَدْرِ".
نمیلہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا آپ سے سیہی ۱؎ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی: «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما» ”اے نبی! آپ کہہ دیجئیے میں اسے اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا“ ان کے پاس موجود ایک بوڑھے شخص نے کہا: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ ناپاک جانوروں میں سے ایک ناپاک جانور ہے“۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو بیشک وہ ایسا ہی ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15494)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/381) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک راوی شیخ مبہم ہیں)
وضاحت: ۱؎: بڑے چوہے کی مانند ایک جانور جس کے پورے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عيسي بن نميلة وأبوه مجهولان (تق: 5336،7194) والشيخ مجهول
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 135
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3799 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3799
فوائد ومسائل:
فائدہ: خار پشت کی حلت وحرمت کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔
بعض نے اسے حلال اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے۔
تاہم شیخ ابن باز اس کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ یہ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ حلال ہے۔
کیونکہ حیوانات کے بارے میں اصل حلت ہے۔
اور ان میں صرف وہی حرام ہیں، جنھیں شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔
اور اس کی بابت شریعت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ جانور حرام ہیں۔
یہ خرگوش اور ہرن کی طرح نباتات کھاتا ہے اور کچلی سے شکار کرے والے درندوں میں سے بھی نہیں ہے۔
لہذا اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
یہ مذکورہ حیوان سہیہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔
اسے دلدل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
جبکہ مذکورہ روایت علمائے محققین کے نزدیک سندا ضعیف ہے۔
(فتاویٰ اسلامیہ جلد، سوم)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3799
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1141
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے سیہ (خار پشت) کے متعلق دریافت کیا گیا۔ انہوں نے جواب میں اللہ کا فرمان سنایا ” (اے رسول!) کہہ دے کہ میں اس میں کوئی حرام چیز نہیں پاتا جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔“ ان کے پاس ایک بزرگ بیٹھے تھے، انہوں نے کہا میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” خبیث جانوروں میں سے ایک خبیث جانور ہے۔“ اس کی روایت احمد اور ابوداؤد نے کی ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1141»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في أكل حشرات الأرض، حديث:3799، وأحمد:2 /381، عيسي بن نميلة وأبوه مجهولان، والشيخ مجهول، والحديث ضعفه الخطابي وغيره.»
تشریح:
1.اس حدیث سے خار پشت‘ یعنی سیہہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کی یہی رائے ہے۔
مگر یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر محققین نے صراحت کی ہے۔
2.امام مالک اور ابن ابی یعلی رحمہما اللہ کا خیال ہے کہ یہ حلال ہے کیونکہ حرمت کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔
(سبل السلام)‘ نیز شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ حلال ہے کیونکہ حیوانات کے بارے میں اصل حلت ہے اور ان میں صرف وہی حرام ہیں جنھیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے اور اس کی بابت شریعت میں کوئی ایسی دلیل وارد نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ جانور حرام ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ یہ خرگوش اور ہرن کی طرح نباتات کھاتا ہے اور کچلی سے شکار کرنے والے درندوں میں سے بھی نہیں ہے‘ لہٰذا اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
یہ مذکورہ حیوان سیہہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے‘ اسے
”دلال
“ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے‘ جبکہ مذکورہ روایت علمائے محققین کے نزدیک سنداً ضعیف ہے۔
دیکھیے:
(فتاویٰ اسلامیہ‘ جلد: سوم‘ طبع دارالسلام) بنابریں دلائل کی رو سے امام مالک اور شیخ ابن باز رحمہما اللہ کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1141