سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِي إِجَابَةِ الدَّعْوَةِ
باب: دعوت قبول کرنے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3738
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُجِبْ عُرْسًا كَانَ أَوْ نَحْوَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی اپنے بھائی کو ولیمے کی یا اسی طرح کی کوئی دعوت دے تو وہ اسے قبول کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ النکاح 16 (1429)، (تحفة الأشراف: 7537)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/68، 101، 127، 146) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1429)
وانظر الحديث السابق (3736)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3738 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3738
فوائد ومسائل:
فائدہ: اپنے مسلمان بھائی کی خوشی میں شریک ہونا انتہائی فضیلت کا کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3738
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5173
´ولیمہ کی دعوت اور ہر ایک دعوت کو قبول کرنا حق ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْوَلِيمَةِ فَلْيَأْتِهَا . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ پر بلایا جائے تو اسے آنا چاہئے۔ معلوم ہوا کہ دعوت ولیمہ کا قبول کرنا ضروری ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5173]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5173کا باب: «بَابُ حَقِّ إِجَابَةِ الْوَلِيمَةِ وَالدَّعْوَةِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں تین مسائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے، تحت الباب دو مسائل کے بارے میں واضح طور پر حدیث کا ذکر فرمایا ہے اور تیسرے باب کے جزء کی مناسبت کے لیے کوئی حدیث بھی پیش نہیں کی، ترجمۃ الباب کے تین اجزاء یہ ہیں۔
الف: ولیمہ کی دعوت
ب: ہر ایک کی دعوت کو قبول کرنا
ج: سات دن تک ولیمہ کی دعوت کو جاری رکھنا
الف: والے مسئلہ کے لئے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث رقم 5173 ذکر فرمائی، جس سے ترجمۃ الباب کے جز سے واضح مناسبت موجود ہے۔
ب: کی تائید کے لئے سیدنا ابوموسی اور سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی، اس جزء کی بھی حدیث سے مناسبت ظاہر ہے۔
ج: اس جزو کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ واضح الفاظ کی حدیث نہ لا سکے،
کیونکہ یہاں پر اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ مقصود ہے، جس میں تیسرے روز ولیمہ کو دکھلاوا قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ [لب اللباب: 196/4]
امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ ولیمہ اور دوسری دعوت کو قبول کرنا واجب ہے، ولیمہ کی دعوت ایک یا دو دن تک خاص نہیں ہے، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے (ترجمۃ الباب کے ذریعے) اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں ولیمے کے پہلے دن کو حق، دوسرے دن کو معروف اور تیسرے دن تک جاری رکھنے کو ریاکاری اور شہرت قرار دیا ہے۔
عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ کے اس بیان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت کی تضعیف کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں تیسرے روز ولیمہ کو ریاکاری سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ تیسرے روز والی روایت مختلف طرق سے مروی ہے اور ان تمام احادیث میں کلام ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
«وعن ابن عباس رفعه ”طعام فى العرس يوم سنة، وطعام يومين فضل، وطعام ثلاثه أيام رياء وسمعة“ اخرجه الطبراني بسند ضعيف، وهذه الاحاديث وان كان كل منها لا يخلو عن يقال فمجمو عها يدل على أن للحديث أصلاً.» [فتح الباري لابن حجر: 207/10]
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفووعاً مروی ہے کہ ”شادی کا کھانا (ولیمہ) سنت ہے اور دوسرے دن افضل ہے اور تیسرے روز ریا ہے، اسے طبرانی نے نکالا ہے، ضعیف سند کے ساتھ، ان روایات میں کچھ نہ کچھ کلام ہے مگر مجموعی طرق کے اعتبار سے حدیث کی اصل معلوم ہوتی ہے۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے تحت مذکورہ بالا روایت مقال سے خالی نہیں ہے، مگر وہ مجموعی طرق کے اعتبار سے اسے حجت ماننے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ اس جانب ہے کہ مجموعی طرق اس کے ضعیف ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ تیسرے دن کے بعد بھی ولیمہ ثابت ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں تین دن کے بعد بھی ولیمہ کرنا ثابت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«يشير اليما أخرجه ابن ابي شيبة من طريق حفصة بنت سيرين قالت: لما تزوج أبى دعا الصحابة سبعة أيام، فلما كان يوم الانصار دعا ابي بن كعب وزيد بن ثابت وغيرهما فكان بي صائماً فلما طعموا دعا ابي و نثي، و خرجه البيهقي من وجه اٰخرا ثم سياقاً منه، وأخرجه عبدالرزاق من وجه اٰخر إلى حفصة وقال عنه ثمانية أيام، واليه اشار المصنف بقوله ”ونحوه“ لأن القصة واحدة وهذا وان لم يذكره المصنف.» [فتح الباري لابن حجر: 207/10]
«ومن اولم سبعة أيام ونحو»
یہ اشارہ ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا (اس روایت کی طرف) جسے امام ابن ابی شیبہ نے حفصہ بنت سیرین کے طریق سے نکالا، چنانچہ آپ فرماتی ہیں، جب میرے والد نے میرا نکاح کیا تو آپ نے صحابہ کو 7 دن تک بلایا، جب انصار کی باری تھی تو والد صاحب نے ابی بن کعب، زید بن ثابت اور دیگر صحابہ کو مدعو کیا، اس روز سیدنا ابی رضی اللہ عنہ روزے سے تھے، مگر دیگر نے کھانا نوش کر لیا، (ولیمہ) تو ابی رضی اللہ عنہ نے دعا دی اور تعریف کی (اور مزید) امام بیہقی نے نکالا جو کہ اس روایت کا نتیجہ سیاق سے اور امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے دوسرے طرق سے نکالا کہ جس میں آٹھویں روز ولیمہ کا ذکر ہے۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی «ونحوه» کہہ کر اسی طرف اشارہ فرمایا ہے، چونکہ یہ واقعہ ایک ہی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اطلاق ترجیح کی طرف اشارہ فرمایا کہ «اجابة الدعوة» مقید نہیں ہے، جس طرح سے آپ کے کلام سے ظاہر ہے۔
لہٰذا ان اقتباسات کا حاصل اور ترجمہ الباب سے حدیث کی نسبت یوں ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ «ونحوه» کہ الفاظ کے ذریعہ ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق کی طرف اشارہ فرما کر اس روایت کے ضعف کی نشاندہی فرما رہے ہیں جس میں تیسرے روز ولیمہ کی ممانعت یا وعید سنائی گئی ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ترجم على جواز الوليمة سبعه أيام، ولم يأت فيه بحديث، وقصده الرد على من أنكر اليوم الثالث، وقال: الثاني فضل، والثالث سمعة، فاستدل البخاري على جوازة الي سبعة، ونحوها بإطلاق الامر بإجابة .» [المتوري على ابواب البخاري: ص 293]
”امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں ساتویں روز تک ولیمہ کا جواز ثابت فرمایا ہے اور اس بارے میں کوئی حدیث پیش نہیں فرمائی، دراصل یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان کا رد کرنا ہے جو تیسرے روز ولیمے کے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسرے روز افضل ہے اور تیسرے روز دکھلاوا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا سات دن تک ولیمہ کے جواز کا اور «ونحوه» فرما کر مطلق طور پر ولیمے کی دعوت کو قبول کرنے کا جواز بھی پیش فرمایا۔“
علامہ بدرالدین جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مقصود البخاري ان الاحاديث مطلقه فى اجابة الداعي ولم يبين النبى صلى الله عليه وسلم فى ذالك عدداً معيناً فدل على الرد من انكر بعد يومين وجعله سمعة.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 99]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ترجمۃ الباب سے ان حضرات کا رد ہے جو تیسرے روز ولیمے کو ریاکاری اور شہرت سے تعبیر دیتے ہیں، دراصل اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجابۃ الداعی کے لیے دنوں کا کوئی تعین نہیں ہے، پس امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں ان کا رد مقصود ہے۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 93
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 364
´دعوت ولیمہ قبول کرنا ضروری ہے`
«. . . 231- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا دعي أحدكم إلى الوليمة فليأتها.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت ملے تو اسے چاہئیے کہ وہ اسے قبول کرے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 364]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5173، و مسلم 1429/96، من حديث مالك به]
تفقه
➊ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا ضروری ہے اِلا یہ کہ کوئی عذرِ شرعی ہو مثلاً مصروفیت، جائے دعوت کی دُوری، جائے دعوت پر غیر شرعی حرکات اور جان کا خوف وغیرہ۔
➋ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ح83، 150
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 231
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 893
´ولیمہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ پر مدعو کیا جائے تو اسے وہاں پہنچنا چاہیئے۔“ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی روایت میں ہے جب تم میں سے کسی کو اس کا بھائی مدعو کرے تو اسے اس کی دعوت کو قبول کرنا چاہیئے خواہ وہ شادی ہو یا اسی طرح کی کوئی اور دعوت۔ «بلوغ المرام/حدیث: 893»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب حق أجابة الوليمة والدعوة......، حديث:5173، ومسلم، النكاح، باب الأمر بإجابة الداعي إلي دعوة، حديث:1429.»
تشریح:
یہ حدیث شادی کے موقع پر کی جانے والی دعوت ولیمہ کے قبول کرنے کو واجب قرار دیتی ہے۔
جمہور کی رائے یہی ہے‘ البتہ وہ یہ شرط ضرور لگاتے ہیں کہ وہاں حاضر ہونے میں کوئی امر مانع نہ ہو‘ مثلاً: کھانا مشتبہ نہ ہو یا محض مالداروں کو مدعو نہ کیا گیا ہو یا باطل کام پرتعاون و استعانت کے لیے اسے دعوت نہ دی گئی ہو یا وہاں کوئی ایسا کام نہ ہو جو غیر پسندیدہ اور شرعاً منکر کی تعریف میں آتا ہو۔
اگر ان صورتوں میں سے کوئی صورت ہو تو جمہور علماء کے نزدیک ایسی دعوت میں حاضر ہونا درست نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 893
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1914
´(ولیمہ کی) دعوت قبول کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1914]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دعوت ولیمہ کا مقصد مسلمانوں کو اپنی خوشی میں شریک کرنا ہے، اس لیے تمام احباب کو بلانا چاہیے۔
(2)
مسلمان کا مسلمان سے تعلق دولت کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایمان کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
ایک غریب نیک مسلمان ایک امیر فاسق سے بہتر ہے۔
(3)
نکاح مسلمانوں کی اہم معاشرتی تقریب ہے اس لیے دعوت ولیمہ میں شریک ہونا معاشرتی تعلقات کے قیام کے لیے بہت اہم اور مفید ہے۔
(4)
دعوت ولیمہ قبول کرنے سے بلا عذر انکار نہیں کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1914
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5173
5173. سیدناابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ کے لیے بلایا جائےتو اسے ضرور جانا چاہئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5173]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولیمہ وہ دعوت ہے جو شادی کے موقع پر بیوی سے ملاپ کے بعد کی جاتی ہے۔
جہاں تک ممکن ہو دعوت ولیمہ ضرور کرنی چاہیے اور اس میں شرکت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
اگر روزے دار ہے تب بھی حاضر ہوتا کہ اس نکاح کا خوب اعلان و اظہار ہو۔
(2)
اس حدیث میں شرکت کے لیے امر کا صیغہ آیا ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صیغۂ امر سے اس میں شرکت کا وجوب ثابت کیا ہے، نیز اس اطلاق سے دنوں کی کوئی تعیین ثابت نہیں ہوتی، لہٰذا حسب توفیق اسے کئی دنوں تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5173