Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے مسائل
3. باب فِي كِتَابَةِ الْعِلْمِ
باب: علم کے لکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3647
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، قَالَ: دَخَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَأَلَهُ عَنْ حَدِيثٍ، فَأَمَرَ إِنْسَانًا يَكْتُبُهُ، فَقَالَ لَهُ زَيْدٌ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَنَا أَنْ لَا نَكْتُبَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ، فَمَحَاهُ".
مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے ایک حدیث کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ایک شخص کو اس حدیث کے لکھنے کا حکم دیا، تو زید رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کی حدیثوں میں سے کچھ نہ لکھیں تو انہوں نے اسے مٹا دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3740)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راواة کثیر اور مطلب متکلم فیہ ہیں)

وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت پہلے تھی جب احادیث کے قرآن کے ساتھ خلط ملط ہوجانے کا اندیشہ تھا، بعد میں کتابت حدیث کی اجازت دے دی گئی جیسا کہ پہلی روایت سے واضح ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
المطلب لم يسمع من زيد بن ثابت رضي اللّٰه عنه (انظر جامع التحصيل ص281) ولم يلق معاوية رضي اللّٰه عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 130

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3647 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3647  
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
تاہم ایک صحیح حدیث بھی ہے۔
جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔
تم مجھ سے قرآن کے والوہ کچھ نہ لکھو۔
اور قرآن کے علاوہ کچھ مجھ سے لکھا ہے۔
تو اسے مٹا دو۔
اور مجھ سے حدیث بیان کرو۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
(صحیح مسلم، الذھد، باب الثبت في الحدیث وحکم کتابة العلم، حدیث: 3004) اس حدیث میں حدیث رسول لکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
جب کہ دوسری روایات سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے احادیث لکھنے کا اثبات ہوتا ہے۔
اور خود نبی ﷺ کی طرف سے حدیث کے لکھنے کا حکم ملتا ہے۔
علماء نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے۔
کہ جن صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی قوت ضبط وحافظہ زیادہ تھی۔
(اور عربوں میں یہ خوبی عام تھی) ان کو آپ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا۔
تاکہ وہ کتابت ہی پر سارا بھر وسا نہ کریں۔
اور حفظ وضبط سے بے نیاز نہ ہوجایئں۔
اور لکھنے کا حکم اور اس کی اجازت ان لوگوں کو دی جن کی قوت حافظہ کمزور تھی۔
دوسری توجیہ اس ی یہ کی گئی ہے کہ ابتداء میں حدیث لکھنے سے روک دیا گیا تھا تاکہ قرآن کے ساتھ اس کا اختلاط نہ ہو۔
اور جب صحابہ قرآن کے اسلوب سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور اختلاط کا خطرہ نہ رہا تو احادیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔
تیسری تطبیق یہ ہے کہ نہی کا مطلب یہ تھا کہ ایک ہی صحیفے میں قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھوتا کہ پڑھنے والا اشتباہ میں نہ پڑے۔
(شرح نووی) بہر حال ممانعت کی حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
بلکہ اس س روک دیا گیا۔
یکسر غلط ہے۔
اگر اس کا یہ مقصد ہوتا تو پھر آپ اسی حدیث میں حدیث بیان کرنے کی اجازت کیوں دیتے؟ جو حفظ وضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو اچھی طرح یاد کرکے اسےآگے بیان کرنے والے کےلئے نبی کریمﷺدعائے خیر کیوں فرماتے؟ بہرحال یہ امر مسلمہ ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں احادیث ضبط تحریر میں لائی گئی تھیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3647