Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
11. باب اجْتِهَادِ الرَّأْىِ فِي الْقَضَاءِ
باب: فیصلے میں اجتہاد رائے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3592
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ، مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ:" كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟، قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؟، قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأحکام 3 (1327)، (تحفة الأشراف: 11373)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/230، 236، 242)، سنن الدارمی/المقدمة 20 (170) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں حارث اور حمص کے کچھ لوگ مبہم ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
السند مرسل
وانظر الحديث الآتي (3593)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 128

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3592 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3592  
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت فقہاء کے نزدیک بہت زیادہ مشہور ہے۔
مگرحققیت یہ ہے کہ سند کے لہاظ سے بالکل ضعیف ہے۔
آئمہ جرح تعدیل میں کوئی بھی اس کی تصیح نہیں کرتا اس کے ضعف کے تین سبب گنوائے گئے ہیں۔


مرسل ہے۔


اصحاب معاذ مجہول ہیں۔


حارث بن عمرو مجہول ہے۔
امام بخاری کہتے ہیں۔
لايصح ولا يعرف الا مرسلا یہ صحیح نہیں اور جتنے طرق معروف ہیں سبھی مرسل ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں۔
هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه وليس إسناده عندي بمتصل یہ حدیث بس اس سند سے مروی ہے۔
جو میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔
امام دارقطنی کہتے ہیں۔
(والمرسل أصح) اس کا مرسل ہونا ہی صحیح تر ہے۔
ابن حزم کہتے ہیں۔
(لا يصح لأن الحارث مجهول و شيوخه لايعرفون) یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ حارث مجہو ل ہے۔
اس کے شیوخ کی بھی خبر نہیں کہ کون ہے۔
ابن طاہر کہتے ہیں۔
لا يصح ابن جوزی نے کہا۔
لا يصح۔
ذہبی کہتے ہیں۔
و أنی له الصحة؟ ومداره علی الحارث بن عمر وهو مجهول عن رجال من أهل حمص لايدری من هم یہ حدیث کیونکہ صحیح ہوسکتی ہے؟ اس کا مدار حارث بن عمرو پر ہے۔
اور وہ خود مجہول ہے۔
اہل حمص سے روایت کرتا ہے۔
جن کی خبر نہیں کہ وہ کون ہیں علاوہ ازیں عقیلی سبکی اور ابن حجر ؒ بھی یہی کہتے ہیں۔
علامہ البانی ؒفرماتے ہیں۔
معنوی اعتبار سے بھی اس میں زبردست خلل ہے۔
اس میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔
اگر اس میں نہ ملا تو پھر سنت رسول اللہ سے اگر اس میں بھی ملا تو پھر رائے استعمال کروں گا حالانکہ یہ ترتیب اورقرآن وسنت کی تفریق کسی طرح صحیح نہیں۔
بلکہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث وسنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔
کیونکہ سنت قرآن کریم کے مجمل کا بیان کرتی ہے۔
مطلق کی تقید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے۔
الغرض یہ ترتیب صحیح نہیں۔
بلکہ ہر مسئلہ بیک وقت قرآن وسسنت میں تلاش کیا جائے۔
پھر خیروالقرون صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تابعین وتبع تابعین کے فتاویٰ و معمولات کو دیکھا جائے۔
اگر نہ ملے تو صاحب علم کو استبناط واستدلال اوراجتہاد کا حق حاصل ہے۔
(ماخوذ از سلسلة الأحادیث الضعیفة علامہ البانی الجزء ثانی، حدیث: 881)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3592   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1327  
´قاضی فیصلہ کیسے کرے؟`
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کے شاگردوں میں سے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کو (قاضی بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ نے پوچھا: تم کیسے فیصلہ کرو گے؟، انہوں نے کہا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: اگر (اس کا حکم) اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہ ہو تو؟ معاذ نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی (اس کا حکم) موجود نہ ہو تو؟، معاذ نے کہا: (تب) میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1327]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں الحارث بن عمرو اوررجال من اصحاب معاذ مجہول راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1327