سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
1. باب فِي طَلَبِ الْقَضَاءِ
باب: منصب قضاء طلب کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3572
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، وَالْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ، فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 1 (2308)، (تحفة الأشراف: 12995)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/365) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3733)
أخرجه ابن ماجه (2308 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3572 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3572
فوائد ومسائل:
فائدہ: منصب قضا انتہائی ذمہ داری اور آزمائش کا منصب ہے۔
اس کا طالب اور حریص ہونے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
کہ اس عہدے کا طلب گار یا اس سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
یا جاہ ومنصب کا خواہش مند ہے۔
یہ دونوں باتیں ایسی ہیں۔
جن کے سبب انسان اس عہدے کے لئے نا اہل ہوجاتا ہے۔
تاہم اگر یہ منصب کسی نہ چاہنے والے کے سپرد کردیا جائے۔
اور وہ حق وانصاف پر ثابت قدم رہے تو اس بڑی عزیمت اور اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3572
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2308
´قاضیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کا قاضی (فیصلہ کرنے والا) بنایا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2308]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے لیکن یہ بہت نازک ذمہ داری ہے کیونکہ صحیح فیصلوں سے معاشر ے میں امن و سکون قائم رہتا ہے اور غلط فیصلوں کا نتیجہ بدامنی اورفساد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
(2)
غلط فیصلے سے کسی بے گناہ کی جان بھی جا سکتی ہے اور ایک آدمی کا حق دوسرے کو مل سکتا ہے، اس لیے جج کو اپنی اس ذمے داری کا ا حساس کرتے ہوئے صحیح فیصلے تک پہنچنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا ضروری ہے۔
(3)
”بغیر چھری سے ذبح ہونے“ سے اس منصب کی نزاکت اور اس فریضے کی انجام دہی کی مشکل کی طرف اشارہ ہے، اس کے باوجود معاشرے میں اس منصب کا وجود ضروری ہے، اس لیے جس شخص میں صلاحیت موجود ہو، اسے یہ ذمہ داری قبول کرنا اور اسے انصاف کے ساتھ کماحقہ ادا کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2308
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1325
´قاضی اور قضاء کے سلسلے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو منصب قضاء پر فائز کیا گیا یا جو لوگوں کا قاضی بنایا گیا، (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1325]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ایک قول کے مطابق ذبح کا معنوی مفہوم مراد ہے کیونکہ اگراس نے صحیح فیصلہ دیا تودنیا والے اس کے پیچھے پڑجائیں گے اوراگرغلط فیصلہ دیا تو وہ آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا،
اورایک قول یہ ہے کہ یہ تعبیراس لیے اختیارکی گئی ہے کہ اسے خبرداراورمتنبہ کیاجائے کہ اس ہلاکت سے مراد اس کے دین وآخرت کی تباہی وبربادی ہے،
بدن کی نہیں،
یا یہ کہ چھری سے ذبح کرنے میں مذبوح کے لیے راحت رسانی ہوتی ہے اور بغیرچھری کے گلا گھوٹنے یا کسی اورطرح سے زیادہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے،
لہٰذا اس کے ذکر سے ڈرانے اورخوف دلانے میں مبالغہ کا بیان ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1325