Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
99. بَابُ مَنْ يُصَلِّي الْفَجْرَ بِجَمْعٍ:
باب: فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1683
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مكة، ثُمَّ قَدِمْنَا جَمْعًا، فَصَلَّى الصَّلَاتَيْنِ كُلَّ صَلَاةٍ وَحْدَهَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ وَالْعَشَاءُ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، قَائِلٌ يَقُولُ: طَلَعَ الْفَجْرُ، وَقَائِلٌ يَقُولُ: لَمْ يَطْلُعِ الْفَجْرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ حُوِّلَتَا عَنْ وَقْتِهِمَا فِي هَذَا الْمَكَانِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، فَلَا يَقْدَمُ النَّاسُ جَمْعًا حَتَّى يُعْتِمُوا وَصَلَاةَ الْفَجْرِ هَذِهِ السَّاعَةَ"، ثُمَّ وَقَفَ حَتَّى أَسْفَرَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَفَاضَ الْآنَ أَصَابَ السُّنَّةَ، فَمَا أَدْرِي أَقَوْلُهُ كَانَ أَسْرَعَ أَمْ دَفْعُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (حج شروع کیا) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی گئیں ہیں، یعنی مغرب اور عشاء، مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں کہ اندھیرا ہو جائے اور فجر کی نماز اس وقت۔ پھر عبداللہ اجالے تک وہیں مزدلفہ میں ٹھہرے رہے اور کہا کہ اگر امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت چلیں تو یہ سنت کے مطابق ہو گا۔ (حدیث کے راوی عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ ان کی زبان سے پہلے نکلے یا عثمان رضی اللہ عنہ کی روانگی پہلے شروع ہوئی، آپ دسویں تاریخ تک جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر لبیک پکارتے رہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1683 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1683  
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت عبدللہ بن مسعود ؓ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ حضرت عثمان ؓ مزدلفہ سے لوٹے، سنت یہی ہے کہ مزدلفہ سے فجر کی روشنی ہونے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
فجر کی نماز سے متعلق اس حدیث میں جو وارد ہے کہ وہ ایسے وقت میں پڑھی گئی کہ لوگوں کو فجر کے ہونے میں شبہ ہو رہا تھا، اس کی وضاحت مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے جو حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاءکو ملا کر ادا کیا پھر آپ ﷺ سو گئے ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ، حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ، بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ إلی آخر الحدیث پھر سو کر آپ ﷺ کھڑے ہوئے جب کہ فجر طلوع ہو گئی۔
آپ ﷺ نے صبح کھل جانے پر نماز فجر کو ادافرمایا اور اس کے لیے اذان اور اقامت ہوئی۔
معلوم ہوا کہ پچھلی حدیث میں راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فجر کی نماز کو اندھیرے میں بہت اول وقت یعنی فجر ظاہر ہوتے ہی فوراً ادا فرما لیا، یوں آپ ﷺ ہمیشہ ہی نماز فجر غلس یعنی اندھیرے میں ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے مگر یہاں اور بھی اول وقت طلوع فجر کے فوراً بعد ہی آپ ﷺ نے نماز فجر کو ادا فرما لیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1683   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1683  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی مختصر اور مفصل دو روایات پیش کی ہیں۔
ان سے مقصود دو مسئلے ثابت کرنے ہیں:
٭ دسویں ذوالحجہ کو صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنی چاہیے، البتہ جو کمزور اور ناتواں حضرات و خواتین ہوں انہیں اجازت ہے کہ وہ رات کے پچھلے حصے میں منیٰ آ جائیں اور نماز فجر منیٰ میں ادا کر کے کنکریاں وغیرہ مار لیں۔
٭ نماز فجر بروقت ہی ادا کریں، البتہ معمول کے وقت سے کچھ پہلے پڑھ لیں۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے صبح صادق سے پہلے پڑھ لیا جائے جیسا کہ بعض حضرات نے گمان کیا ہے بلکہ اسے طلوع فجر کے بعد ہی پڑھنا ہو گا جیسا کہ صحیح بخاری ہی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر طلوع فجر کے وقت پڑھی۔
(حدیث: 1683)
صحیح مسلم میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب و عشاء پڑھنے کے بعد سو گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی، پھر صبح کھلنے کے بعد نماز فجر ادا کی۔
ویسے بھی آپ کا معمول تھا کہ نماز فجر اندھیرے میں ادا کرتے تھے لیکن اس دن طلوع فجر کے فورا بعد ہی آپ نے نماز فجر ادا کر لی تاکہ وقوف مزدلفہ کے لیے کچھ وقت مل جائے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق جو الفاظ استعمال کیے ہیں حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بعینہ یہی الفاظ وقوف عرفہ سے لوٹتے وقت ادا کیے تھے، چنانچہ جب عرفہ میں وقوف کیا اور سورج غروب ہو گیا تو انہوں نے فرمایا:
اگر امیر المومنین اس وقت مزدلفہ لوٹیں تو سنت کے مطابق عمل کریں۔
راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ بات پہلے کہی یا حضرت عثمان ؓ نے مزدلفہ کی طرف کوچ پہلے کیا۔
(فتح الباري: 671/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1683