Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
52. باب مَنْ قَالَ فِيهِ وَلِعَقِبِهِ
باب: کوئی چیز کسی کو دے کر یہ کہنا کہ یہ چیز تمہاری اور تمہارے اولاد کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 3556
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُرْقِبُوا، وَلَا تُعْمِرُوا، فَمَنْ أُرْقِبَ شَيْئًا، أَوْ أُعْمِرَهُ فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیا گیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہو جائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/العمري (3762)، (تحفة الأشراف: 2458) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: رقبیٰ یہ ہے کہ کسی مکان وغیرہ کو یہ کہہ کر دے کہ اگر میں پہلے مر گیا تو یہ مکان تمہارا ہو جائے گا اور اگر تم پہلے مر گئے تو میں واپس لے لوں گا اور عمری بھی قریب قریب یہی ہے کہ کسی کو مکان، زمین وغیرہ عمر بھر کے لئے دے، یہ روکنا غالباً دینے والوں اور ورثاء کے درمیان فتنے اور لڑائی کے ڈر سے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1625)
مشكوة المصابيح (3013)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3556 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3556  
فوائد ومسائل:
فائدہ: (رقبیٰ) میں اس انداز سے ہدیہ دیا جاتا ہے۔
کہ کہے جیتے جی یہ چیز استعمال کرتے رہو۔
اگر تو پہلے فوت ہوگیا تو مجھے واپس ہوگی۔
ورنہ تیری ہوئی۔
بلاشبہ اس قدر طویل مدت تک ایک چیز پر متصرف رہنے کی وجہ سے انسان اس سے مانوس ہوجاتا ہے۔
جسے بعد ازاں واپس کرنا فتنے کا باعث بنتا ہے۔
اس لئے یا تو ہدیہ کلی طور پردے دینا چاہیے یا پھر مناسب مدت کے بعد واپس لے لے۔
بنا بریں عمریٰ یا رقبیٰ کے نام سے جو ہدیہ دیا جائے گا۔
وہ ہمیشہ کےلئے موہوب لہ کا ہوجائےگا۔
راحج مذہب یہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3556   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 282  
´عمریٰ کا بیان`
«. . . 21- عن أبى سلمة عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذى أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث . . .»
. . . سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو عمریٰ (عمر بھر کے لئے کسی چیز کا تحفہ) دیا جائے کہ یہ اس کا اور اس کے وارثوں کا حق ہے تو جسے عمریٰ ملا اسی کا ہو جائے گا اور دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ اس نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں وارثت کے احکام جاری ہو گئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 282]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 756/2 ض 1517، ك 36 ب 37 ح 43، التمهيد 112/7، الاستذكار: 1446، و أخرجه مسلم فواد عبدالباقی ترقیم 1625، دارالسلام 4188، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمریٰ کو جائز رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عمریٰ دینے والا کہے: یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ اگر وہ یہ کہے کہ یہ تیرے لئے ہے جتنا عرصہ تو زندہ رہے تو یہ عمریٰ دینے والے کے پاس واپس لوٹ جائے گا۔ امام زہری بھی اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ [صحيح مسلم 1265/23، وترقيم دارالسلام: 4191]
➋ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے زید بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو ایک گھر عمر بھر کے لئے دیا۔ جب زید رضی اللہ عنہ کی بیٹی فوت ہو گئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ گھر واپس لے لیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ (بہن کے وارث ہونے کی وجہ سے) یہ گھر ان کا ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1519 وسنده صحيح]
➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو اسی بات پر پایا ہے کہ وہ اپنے امول کے بارے میں اور جو انہیں ملتا شرطوں کی پابندی کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
➍ امام مالک فرماتے تھے: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ، عمریٰ دینے والے کو لوٹ جاتا ہے بشرطیکہ وہ یہ نہ کہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 21   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3773  
´اس حدیث میں زہری پر رواۃ کے اختلاف کا ذکر۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ اس کا ہے جس کے لیے عمریٰ کیا گیا، یہ (زندگی بھر) اس کا رہے گا، اور (مرنے کے بعد) اس کی اولاد کا ہو گا، اس کی اولاد میں سے جو اس کے وارث ہوں گے وہی اس کے وارث ہوں گے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب العمرى/حدیث: 3773]
اردو حاشہ:
اولاد کے لیے نہ بھی کہے تب بھی وہ چیز اولاد کو بطور وراثت ملے گی۔ سابقہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3773   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3780  
´اس حدیث میں زہری پر رواۃ کے اختلاف کا ذکر۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمریٰ کے سلسلہ میں ایک شخص نے ایک شخص کو اور اس کی اولاد کو کوئی چیز ہبہ کی اور اس بات کا استثناء کیا کہ اگر تمہارے ساتھ اور تمہاری اولاد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا یا تو یہ چیز میری اور میری اولاد کی ہو جائے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا کہ وہ چیز اس کی ہو گی جس کو دے دی گئی ہے اور اس کے اولاد کی ہو گی (استثناء کا کوئی حاصل نہ ہو گا)۔ [سنن نسائي/كتاب العمرى/حدیث: 3780]
اردو حاشہ:
حدیث: 3774 سے اس حدیث تک عمریٰ کی یہ صورت بیان کی گئی ہے کہ یہ چیز تیرے اور تیری اولاد کے لیے ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز تو واپس آنے سے رہی کیونکہ دینے والا خود اولاد کی صراحت کرچکا ہے۔ اس قسم کی احادیث سے امام مالک رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا ہے کہ اگر عمریٰ دینے والا اولاد کی صراحت نہ کرے تو وہ چیز معمرلہ کی وفات کے بعد دینے والے کو واپس مل جائے گی۔ مگر استدلال کمزور ہے کیونکہ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ صرف ان احادیث سے ایسے مفہوماً سمجھ میں آتا ہے جبکہ دیگر احادیث میں صراحتاً صرف عمریٰ کا لفظ کہنے پر بھی واپسی کی نفی کی گئی ہے۔ چاہے اس نے اولاد کا ذکر نہ بھی کیا ہو۔ جب منطوق (صراحت) اور مفہوم میں مقابلہ ہو تو منطوق (صراحت) ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3780   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2383  
´رقبی کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو عمریٰ دیا گیا، اور رقبیٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو رقبیٰ دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رقبٰی کامطلب یہ ہےکہ میں تمھیں مثلاً:
یہ مکان دیتا ہوں۔
اگر تم پہلے فوت ہوئے تومکان مجھے واپس مل جائے گا اور اگرمیں پہلے فوت ہوا تومکان تمھارا رہے گا۔

(2)
عمریٰ اور رقبٰی میں فرق یہ ہےکہ عمرٰی میں صرف لینے والے کی عمر کا لحاظ ہوتا تھا کہ جب تک وہ زندہ رہے اس مکان میں رہے گا خواہ دینے والے سےپہلے فوت ہو یا بعد میں۔
جب بھی لینے والا فوت ہوگا، مکان دینے والے کو یا اس کے وارثوں کوواپس مل جائے گا۔
رقبیٰ میں یہ شرط ہوتی تھی کہ صرف اس صورت میں واپس ملے گا، اگر لینے والا پہلے فوت ہو۔
اگر دینے والا پہلے فوت ہوتو مکان لینے والے ہی کا ہو جاتا تھا۔

(3)
عمرٰی اوررقبٰی دونوں کا رواج عرب میں اسلام سے پہلے موجود تھا۔
اسلام میں ان دونوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

(4)
ہبہ کرنا جائز ہے۔
اگر عمرٰی یا رقبٰی والی شرط رکھ کی کسی کوکچھ دیا جائے تووہ ہبہ ہی شمار ہوگا اوریہ شرط خلاف شریعت ہونےکی وجہ سے کالعدم ہو گی۔

(5)
اگر کوئی شخص کسی غریب کی مدد کرناچاہتا ہےاوریہ بھی چاہتا ہے کہ مکان وغیرہ اس کی ملکیت میں رہے تو اسے عاریتاً کچھ مدت کےلیے دینا چاہیے۔
مدت ختم ہونے پر ضرورت محسوس کی جائے تومدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2383   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1351  
´رقبیٰ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ۱؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1351]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رقبیٰ رقب سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔
اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔
موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔
واہب کو بھی نہیں لوٹے گی،
جیسے عمریٰ میں ہے۔
رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی،
تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی،
اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی،
پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔
اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1351   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1293  
1293-سیلمان بن سیار بیان کرتے ہیں: طارق نامی صاحب مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ انہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ حدیث کی بنیاد ہ پر عمریٰ کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ وہ وارث کو ملے گی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1293]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن دین کا حصہ اور منزل من اللہ ہے، اسی طرح احادیث کے احکامات بھی منزل من اللہ ہیں، قرآن کریم کی طرح حدیث بھی حجت ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو حجت مانتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1291   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4188  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اور اس کی اولاد کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دی گئی تو وہ اس کی ہے جس کو دی گئی ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گی، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے، جس میں وراثت جاری ہو چکی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4188]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عُمريٰ:
کسی کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دینا کہ جب تک تم زندہ رہو،
یہ چیز تمہاری ہے۔
فوائد ومسائل:
عُمري کی تین صورتیں ہیں۔
(1)
دینے والا کہتا ہے،
(هي لك ولعقبك)
،
یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہے،
یعنی تیری زندگی کے بعد تیرے وارثوں کا ہے،
تو اس صورت میں جمہور کے نزدیک یہ چیز یا مکان ہمیشہ کے لیے جس کو دیا گیا ہے،
اس کا ہو گا،
اور اس کے بعد اس کی اولاد کا،
اور اگر اس کی نسل ختم ہو جائے،
تو یہ بیت المال کو ملے گا،
لیکن امام مالک اور امام لیث کے نزدیک یہ انسان اور اس کی اولاد،
اس چیز سے فائدہ اٹھا سکتی ہے،
اگر گھر ہے تو رہائش اختیار کر سکتی ہے،
ان کی ملکیت میں نہیں آئے گا،
اس لیے اگر اس کے ورثاء ختم ہو جائیں،
تو یہ دینے والے کے ورثاء کو مل جائے گا،
لیکن یہ موقف اس صریح حدیث کے منافی ہے۔
(2)
گھر دینے والا یہ کہتا ہے،
میں یہ گھر تمہیں تمہاری زندگی تک دیتا ہوں،
تمہاری موت کے بعد مجھے واپس مل جائے گا،
امام مالک کے نزدیک،
جس کو دیا گیا ہے،
اس کو زندگی تک اس کے پاس رہے گا،
اس کے مرنے کے بعد،
دینے والے کو اگر زندہ ہو،
وگرنہ اس کے وارثوں کو واپس مل جائے گا،
امام زہری،
امام داؤد وغیرھما کا موقف بھی یہی ہے،
امام احمد اور امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے،
اور بقول حافظ ابن حجر بعض شوافع نے اس قول کو ترجیح دی ہے،
لیکن اکثر شوافع اس کو قبول نہیں کرتے،
شاہ ولی اللہ بھی اس کو عاریتاً ہی قرار دیتے ہیں،
لیکن جمہور کے نزدیک اس کا حکم بھی پہلی صورت والا ہے،
اور یہ شرط ساقط ہو گی،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی کا قول جدید اور امام احمد کا راجح قول یہی ہے،
لیکن بقول صاحب تیسیر العلام حافظ ابن تیمیہ نے،
(المسلمون علي شروطهم)
کے تحت،
اس شرط کو صحیح قرار دیا ہے۔
(3)
بغیر کسی قید یا شرط کے کہتا ہے،
کہ یہ گھر عمر بھر کے لیے تیرا ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک اس کا حکم پہلی صورت والا ہے،
یہ ھبہ ہو گا،
عاریتاً نہیں ہو گا،
امام مالک،
امام لیث کے نزدیک یہ عاریۃ ہے،
دینے والے یا اس کے وارثوں کی طرف لوٹ آئے گا،
امام شافعی کا ایک قول یہی ہے،
اور امام شافعی کا قول قدیم یہ ہے کہ یہ صورت درست نہیں ہے۔
(فتح الباري،
ج 5،
ص 294،
مکتبة دارالسلام)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4188   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4191  
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عمرىٰ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری قرار دیا ہے، وہ اس طرح کہنا ہے کہ یہ تیرا اور تیری نسل کا ہے، لیکن اگر یہ کہتا ہے کہ یہ تیری زندگی تک تیرا ہے، تو پھر وہ (اس کی موت کے بعد) اس کے مالک کی طرف لوٹ آئے گا، معمر بیان کرتے ہیں، زھری اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4191]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے،
جو کہتے ہیں،
اس صورت میں عُمريٰ،
عاریہ کے حکم میں ہے،
اس حدیث کے راویوں ابو سلمہ،
زھری کا یہی موقف ہے،
امام مالک،
قاسم بن محمد،
ابن ابی ذئب،
ابو ثور اور داؤد کا بھی یہی موقف ہے،
لیکن جمہور کے نزدیک یہ استثناء درست نہیں ہے،
کیونکہ عام روایات مطلق ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4191   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4192  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اس انسان کے بارے میں جسے یہ کہا گیا یہ چیزیں تیری اور تیری اولاد کی ہے، فیصلہ دیا، یہ قطعی طور پر اس کی ہے، اس میں دینے والے کے لیے کوئی شرط لگانا یا استثناء کرنا جائز نہیں ہے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد ابو سلمہ کہتے ہیں، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے، جس میں وراثت جاری ہو چکی ہے اور وراثت نے اس کی شرط کو ختم کر دیا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4192]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اس صورت میں استثناء یا شرط جائز نہیں ہے،
جب عمری،
اس کے اور اس کی اولاد کے لیے ہو،
اگر عمری صرف اس کے لیے ہو تو پھر اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی،
اس لیے شرط یا استثناء درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4192   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4196  
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مالوں کو اپنے لیے روک کر رکھو، اور ان کو (اپنے لیے) خراب نہ کرو، کیونکہ جس نے عمر بھر کے لیے چیز ھبہ کی، وہ اس کی ہے زندہ ہو یا مردہ، اور اس کی اولاد کی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4196]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
عمری اگر مطلق ہو یعنی اس میں کوئی شرط یا استثناء یا قید نہ ہو،
تو وہ مالک کی ملکیت سے نکل جائے گا،
اس لیے اسے سوچ سمجھ کر یہ کام کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4196   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2625  
2625. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے عمر کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2625]
حدیث حاشیہ:
عمریٰ کسی شخص کو مثلاً عمر بھر رہنے کے لیے مکان دینا۔
رقبیٰ یہ ہے مثلاً کسی کو ایک مکان دے اس شرط پر کہ اگر دینے والا پہلے مرجائے تو مکان اس کا ہوگیا اور اگر لینے والا پہلے مرجائے تو مکان پھر دینے والے کا ہوجائے گا۔
اس میں ہر ایک دوسرے کی موت کو تکتا رہتا ہے۔
اس لیے اس کا نام رقبیٰ ہوا۔
یہ دونوں عقد جاہلیت کے زمانے میں مروج تھے۔
جمہور علماءکے نزدیک دونوں صحیح ہیں اور امام ابوحنیفہ ؒنے رقبیٰ کو منع رکھا ہے۔
اور جمہور علماءکے نزدیک عمریٰ لینے والے کا ملک ہوجاتا ہے اور دینے والے کی طرف نہیں لوٹتا۔
امام بخاری ؒ نے جو حدیث اس باب میں بیان کی، اس میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے رقبیٰ کا نہیں۔
اور شاید انہوں نے دونوں کو ایک سمجھا۔
(وحیدی)
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَالْعُمْرَى بِضَمِّ الْمُهْمَلَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ مَعَ الْقَصْرِ وَحُكِيَ ضَمُّ الْمِيمِ مَعَ ضَمِّ أَوَّلِهِ وَحُكِيَ فَتْحُ أَوَّلِهِ مَعَ السُّكُونِ مَأْخُوذٌ مِنَ الْعَمْرِ وَالرُّقْبَى بِوَزْنِهَا مَأْخُوذَةٌ مِنَ الْمُرَاقَبَةِ لِأَنَّهُمْ كَانُوا يَفْعَلُونَ ذَلِكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَيُعْطِي الرَّجُلَ الدَّارَ وَيَقُولُ لَهُ أَعْمَرْتُكَ إِيَّاهَا أَيْ أَبَحْتُهَا لَكَ مُدَّةَ عُمُرِكَ فَقِيلَ لَهَا عُمْرَى لِذَلِكَ وَكَذَا قِيلَ لَهَا رُقْبَى لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا يَرْقُبُ مَتَى يَمُوتُ الْآخَرُ لِتَرْجِعَ إِلَيْهِ وَكَذَا وَرَثَتُهُ فَيَقُومُونَ مقَامه فِي ذَلِك هَذَا أَصْلهَا لُغَة وَأما شَرْعًا فَالْجُمْهُورُ عَلَى أَنَّ الْعُمْرَى إِذَا وَقَعَتْ كَانَتْ مِلْكًا لِلْآخِذِ وَلَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ إِلَّا إِنْ صَرَّحَ بِاشْتِرَاطِ ذَلِكَ وَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلَى صِحَّةِ الْعُمْرَى (فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ لفظ عمریٰ عمر سے ماخوذ ہے اور رقبیٰ مراقبہ سے۔
اس لیے کہ جاہلیت میں دستور تھا کوئی آدمی بطور عطیہ کسی کو اپنا گھر اس شرط پر دے دیتا کہ یہ گھر صرف تیری مدت عمر تک کے لیے میں تجھے بخشش کرتا ہوں اسی لیے اسے عمریٰ کہاگیا اور رقبیٰ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا کہ کب وہ موہوب لہ انتقال کرے اور کب گھر واہب کو واپس ملے۔
اسی طرح اس کے وارث منتظر رہتے۔
یہ لغوی طور پر ہے شرعاً یہ کہ جمہور کے نزدیک عمریٰ جب واقع ہوجائے تو وہ لینے والے کی ملکیت بن جاتاہے اور اول کی طرف واپس نہیں ہوسکتا۔
مگر اس صورت میں کہ دینے والا صراحت کے ساتھ واپسی کی شرط لگادے اور جمہور کے نزدیک عمریٰ صحیح ثابت ہوجاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2625