سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
51. باب فِي الْعُمْرَى
باب: عمر بھر کے لیے عطیہ دینا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 3552
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنِ أَبِي سَلَمَةَ، وَعُرْوَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَكَذَا رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ.
اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے لیث بن سعد نے زہری سے زہری نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3550)، (تحفة الأشراف: 3148) (صحیح)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
انظر الحديث الآتي (3553)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3552 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3552
فوائد ومسائل:
فائدہ: مذکورہ اور درج ذیل باب کی تمام احادیث پر نظر ڈالنے سے یہی واضح ہوتا ہے کہ عمر بھر کے لئے عطیہ دینے والے نے موہوب لہ کی اولاد کا ذکر کیا ہویا نہ کیا ہو، یہ اس کی اولاد کو منتقل ہوجائےگا۔
اگر دینے والا بالفرض عمر بھر کی صراحت کر بھی دے تو بقول بعض شراح وفقہاء یہ شرط لغو ہے۔
اس کا کوئی اعتبار نہیں اور یہی راحج ہے۔
(ان شاء اللہ) تاہم فقہاء میں بعض ایسے بھی ہیں جو اسے عاریت کے مفہوم میں باور کرتے ہوئے واپس ہوجانے کے قائل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3552