حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدًا أُمَّ مُعَاوِيَةَ، جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ، رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَإِنَّهُ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا؟، قَالَ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَبَنِيكِ بِالْمَعْرُوفِ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5422
´حاکم اگر کسی کو پہچانتا ہو تو اس کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل شخص ہیں، وہ مجھ پر اور میرے بچوں پر اس قدر نہیں خرچ کرتے ہیں جو کافی ہو، تو کیا میں ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں اور انہیں پتا بھی نہ چلے؟ آپ نے فرمایا: ”بھلائی کے ساتھ اس قدر لے لو کہ تمہارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5422]
اردو حاشہ:
(1) عنوان کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کی بابت حاکم جانتا ہو کہ یہ ایسا ہے اور اس کے متعلق کوئی مسئلہ پیش ہوجائے تواس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا کہ نہ توحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوبلایا اورنہ ان سے کچھ پوچھا کیونکہ آپ ان کی بابت جانتےتھے۔
(2) کسی کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں یہ شرعاً جائز ہے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے ان کی تعداد چھ بیان کی ہے۔ وہ فرماتےہیں: شرعی ضرورت کی بنا پرکسی زندہ یا مردہ شخص کی غیبت کرنا مباح ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ کارنہ ہو: کسی منکر کوتبدیل کرنے یا کرانے کے لیے کسی کی مدد و استعانت کی ضرورت ہو یا کسی خطاکارکودرستی کی طرف لانا مقصود ہوتواس شخص کےسامنے جو ازالہ منکر کی قدرت واختیار رکھتا ہو معاملے کی توضیح کرنا جائز ہے اس وقت بھی مباح ہے۔ کسی مفتی اورعالم سے فتوی لینے کےلیے اسے حقیقت حال سے باخبر کرنا مثلا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھ پریہ ظلم کیا ہے اس نے مجھے میرے حق سےمحروم کردیا ہے وغیرہ یہ بھی حرام غیبت کی قسم سے نہیں بلکہ جائز ہے۔ کسی ظالم کے ظلم اوراس کے شرسے دیگر مسلمانوں کوبچانے کےلیے اس کےسیاہ کرتوتوں سے باخبر کرنا یا اہل اسلام کوان کی خیر خواہی کے پیش نظریہ بتانا کہ فلاں شخص میں یہ کمینہ پن ہے اوروہ اس اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرسکتا ہے لہٰذا تمھیں اس سے محتاط اورہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رواۃ حدیث پرجرح نیز کہیں رشتے ناتےکرنے والوں کو اگلے اہل خانہ کی بابت مشورہ دینا اور ان کی کمزوریاں اورکوتاہیاں وغیرہ بیان کرنا اسی قبیل سےہے۔ اوریہ بالاتفاق جائز اورمباح بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے۔ پانچواں مقام جہاں غیبت کرنا شرعا مباح ہے یہ ہے کہ کوئی شخص سرعام فسق وفجورکا ارتکاب کرتا ہو یا پکا بدعتی ہو یا برسرعام شراب پینے والا اورجوا وغیرہ کھیلنے والا ہوتودیگر لوگوں کواس کے ان مذکورہ سیاہ کارناموں کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنےآپ کواس سے محفوظ رکھ سکیں۔ چھٹا مقام یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے لقب یا نام سے معروف ہوجوظاہراً غیبت بنتا ہو مثلاً اعرج (لنگڑا) اعمش (کمزورنگاہ والا یعنی چوندھا) اعمیٰ (اندھا) احول (بھینگا) وغیرہ تواسے بلانا بشرطیکہ تنقیص کی نیت نہ ہوتو جائز ہے ورنہ حرام ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) قاضی اورحاکم کے لیے باہم جھگڑنے والوں کا درست فیصلہ کرنے کے لیے فریق مخالف سے دوسرے کی غیبت سننا مباح ہے جیسا کہ ذکر ہوچکا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کے لیے کسی اجنبی اورغیرمحرم عورت کی آواز بوقت ضررت سننا جائز ہے۔
(5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی اوربچوں کا خرچہ خاوند اورباپ کے ذمے ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ہ اسی قدر واجب ہے جس قدر بیوی بچوں کی جائز ضرورت ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت نے جب امور کی تجدید نہیں کی ان میں عرف کا لحاظ کیا جائے۔
(6) مناسب انداز میں یعنی تمھاری سماجی حیثیت کےلحاظ سےاوریہ حیثیت بدلتی رہتی ہے۔ امیر گھرانے میں اخراجات کی حیثیت اورہوتی ہے اورغریب گھرانے میں اور۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5422
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2293
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2293]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے۔
(2)
مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں، اس لیےجائز ہے۔
(3)
جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(4)
”مناسب حد“ کا تعین حالات، ماحول، خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2293
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5359
5359. سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ہند بنت عتبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں کیا مجھے گناہ ہوگا اگر میں (ان کے علم کے بغیر) ان کے مال میں سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ مگر ایسا دستور کے مطابق ہونا چاہیئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5359]
حدیث حاشیہ:
یعنی حد سے زیادہ نہ ہو تاکہ خیانت کا جرم عائد نہ ہو سکے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5359
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5364
5364. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو الا یہ کہ میں کچھ مال ان کی بے علمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5364]
حدیث حاشیہ:
بخیل مرد کی عورت کوجائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنا اور بچوں کا گزران لے لینا جائز ہے۔
یہی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا ہیں جن کے متعلق مزید تفصیل یہ ہے۔
وَكَانَتْ هِنْدٌ لَمَّا قُتِلَ أَبُوهَا عُتْبَةُ وَعَمُّهَا شَيْبَةُ وَأَخُوهَا الْوَلِيدُ يَوْمَ بَدْرٍ شَقَّ عَلَيْهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَقُتِلَ حَمْزَةُ فَرِحَتْ بِذَلِكَ وَعَمَدَتْ إِلَى بَطْنِهِ فَشَقَّتْهَا وَأَخَذَتْ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا ثُمَّ لَفَظَتْهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ وَدَخَلَ أَبُو سُفْيَانَ مَكَّةَ مُسْلِمًا بَعْدَ أَنْ أَسَرَتْهُ خَيْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَأَجَارَهُ الْعَبَّاسُ غَضِبَتْ هِنْدٌ لِأَجْلِ إِسْلَامِهِ وَأَخَذَتْ بِلِحْيَتِهِ ثُمَّ إِنَّهَا بَعْدَ اسْتِقْرَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ جَاءَتْ فَأَسْلَمَتْ وَبَايَعَتْ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي أَوَاخِرِ الْمَنَاقِبِ أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ الْيَوْمَ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ فَقَالَ أَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ (فتح) (پارہ: 22ص: 238)
یہ اس لیے ہوا کہ جنگ بدر میں جب ہند کا باپ عتبہ اور اس کا چچا شیبہ اور اس کا بھائی ولید مقتول ہوئے تو یہ اس پر بہت بھاری گزرا اور اس غصہ کی بنا پر اس نے وحشی کو لالچ دے کر اس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا۔
اس سے وہ بہت خوش ہوئی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ کو اس نے چاک کیا اور آپ کے کلیجہ کو نکال کر چبا کر پھینک دیا۔
جب فتح مکہ کا دن ہوا اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ مکہ میں مسلمان ہو کر داخل ہوا کیونکہ اسے اسلامی لشکر نے قید کر لیا تھا۔
پس اسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پناہ دی تو اس کے اسلام پر ہندہ بہت غصہ ہوئی اور اس کی داڑھی کو پکڑ لیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مستقل طور پر قابض ہو گئے تو ہندہ حاضر دربار رسالت ہو کر مسلمان ہو گئی اور کہا کہ یا رسول اللہ! دنیا میں کوئی گھرانہ میری نظروں میں آپ کے گھرانے سے زیادہ ذلیل نہ تھا مگر آج اسلام کی بدولت دنیا میں کوئی گھرانہ میرے نزدیک آپ کے گھرانے سے زیادہ معزز نہیں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے نزدیک بھی یہی معاملہ ہے۔
اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی دشمن عورت کے لیے بھی آپ کے دل میں کتنی گنجائش ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسلام قبول کر لیتی ہے۔
آپ اس کی ساری مخالفانہ حرکتوں کو فراموش فرما کر اسے اپنے دربارعالیہ میں شرف باریابی عطا فرما کر سرفراز فرما دیتے ہیں۔
صلی اللہ علیه و سلم ألف ألف مرة و عدد کل ذرة و علیٰ آله و أصحابه أجمعین آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5364
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7180
7180. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہند بنت عقبہ ؓ نے نبی ﷺ سےکہا: ابو سفیان ؓ بہت کنجوس آدمی ہیں اور مجھے ان کے مال سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دستور کے مطابق تمہیں اتنا لینے کی اجازت ہے جو تمہارے لیے بچوں کے لیے کافی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7180]
حدیث حاشیہ:
آپ نے ابوسفیان کی غیرحاضری میں فیصلہ دے دیا یہی باب سے مطابقت ہے۔
ہند بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان کی اور ماں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت فاروقی میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنها
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7180
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5370
5370. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ہند ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو سفیان بہت بخیل آدمی ہے۔ کیا مجھ گناہ ہوگا کہ میں اس کئ مال سے اتنا لے لوں جو مجھے اور میرے بیٹوں کو کافی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”دستور کے مطابق بقدر کفایت لے سکتی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5370]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ اولاد کا خرچہ باپ پر لازم ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ہندہ کو یہ حکم فرماتے کہ آدھا خرچ تو دے اور آدھا ابو سفیان کے مال سے لے مگر آپ نے ایسا نہیں فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5370
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2211
2211. حضرت انس بن مالک سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ابو طیبہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو سینگی لگائی تو آپ نے اسے ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا، نیز آپ نے اس کے مالکان سے کہا کہ اس کے محصول سے کچھ کمی کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2211]
حدیث حاشیہ:
حضرت ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان والدہ حضرت معاویہ ؓ ہیں۔
اس حدیث سے بیویوں کے حقوق پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اگر خاوند نان نفقہ نہ دیں یا بخل سے کام لیں تو ان سے وصول کرنے کے لیے ہر جائز راستہ اختیار کرسکتی ہیں۔
مگر نیک نیتی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور اگر محض فساد اور خانہ خرابی مد نظر ہے تو پھر یہ رخصت ختم ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2211
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2460
2460. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہندبنت عتبہ ربیعہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ابو سفیان ؓ بڑے کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ لے کر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم بچوں کو رواج کے مطابق کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2460]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام شافعی ؒ نے اسی حدیث پر فتوی دیا ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مل جائے مظلوم اپنے مال کی مقدار میں اسے لے سکتا ہے، متاخرین احناف کا بھی فتوی یہی ہے۔
(تفہیم البخاری،پ: 9، ص: 124)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2460
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7161
7161. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ ؓا آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر کوئی گھر انہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق میں اس حد تک ذلت کی خواہش مند ہوتی جتنا آپ کے گھرانے کی ذلت اور رسوائی کی خواہش مند تھی اور اب میں سب سے زیادہ اس امر کی خواہش مند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت وسربلندی میں سب سے زیادہ اونچا ہو۔ پھر انہوں نے کہا: ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ بلا اجازت ان کے مال میں سے اہل وعیال کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7161]
حدیث حاشیہ:
اس مقدمہ کے متعلق آپ کو ذاتی علم تھا اسی وثوق پر آپ نے یہ حکم دے دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2460
2460. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہندبنت عتبہ ربیعہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ابو سفیان ؓ بڑے کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ لے کر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم بچوں کو رواج کے مطابق کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2460]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مظلوم کو مل جائے وہ اپنے مال کی حقدار کے مطابق اس سے لے سکتا ہے۔
انہوں نے اپنے مسلک کی ترجیح کے لیے امام ابن سیرین ؒ کا قول بھی حسب عادت ذکر کیا ہے۔
ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جب کسی کو قاضی کے ذریعے سے اپنا حق لینا ممکن نہ ہو اور انکار کی صورت میں صاحب حق کے پاس گواہ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طریقے سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو معروف اور دستور کے مطابق ابو سفیان ؓ کے مال سے بچوں کا خرچہ لینے کی اجازت دی۔
(2)
دستور کے مطابق ہونے کا تعلق ترازو سے نہیں بلکہ جسے سمجھ دار آدمی کہے کہ اتنا ہے تو وہ لے لینا چاہیے۔
وہ معروف کے مطابق ہو گا۔
اس کی آڑ میں شاہ خرچیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2460
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5359
5359. سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ہند بنت عتبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں کیا مجھے گناہ ہوگا اگر میں (ان کے علم کے بغیر) ان کے مال میں سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ مگر ایسا دستور کے مطابق ہونا چاہیئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5359]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2211) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر گھر میں موجود نہ ہو اور گھر کے اخراجات کا بندوبست نہ کر کے گیا ہو تو اس کے مال سے اتنا خرچ لیا جا سکتا ہے جو گھر کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔
(3)
اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے:
٭ بیوی کے خرچے کی مقدار مقرر نہیں ہے کیونکہ آپ نے فرمایا:
”تم اتنا لے لو جو تمہیں کافی ہو۔
“ ٭ بیوی کا خرچ بچوں کے خرچ کی جنس سے ہے، یعنی دونوں معروف طریقے سے ادا کیے جائیں گے۔
٭ اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار صرف اس کا والد ہے۔
٭ اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے حسب کفایت خرچہ لے سکتی ہو تو اسے فسخ نکاح کا حق نہیں ہے۔
٭ جن واجبات کی حد مقرر نہ ہو، ان میں عرف کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
٭ اگر شوہر اور والد اپنے واجبات ادا نہ کریں تو کسی بھی طریقے سے ان سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5359
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5364
5364. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو الا یہ کہ میں کچھ مال ان کی بے علمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5364]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
وہ جب معاہدے کی اس شق پر پہنچیں کہ تم چوری نہیں کرو گی تو انہوں نے کہا:
میں تو ابو سفیان کے مال سے چوری کرتی رہی ہوں۔
اس وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
پہلے جو چوری ہو چکی وہ تمہیں معاف ہے۔
اب دوسری مرتبہ حاضر خدمت ہوئیں تو حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔
اس وقت انہوں نے کہا:
میرے شوہر انتہائی بخیل ہیں۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بخیل شوہر کی بیوی کو جائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنا لے لینا حلال ہے جس سے اس کی اور اس کی اولاد کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
(فتح الباري: 632/9)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5364
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5370
5370. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ہند ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو سفیان بہت بخیل آدمی ہے۔ کیا مجھ گناہ ہوگا کہ میں اس کئ مال سے اتنا لے لوں جو مجھے اور میرے بیٹوں کو کافی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”دستور کے مطابق بقدر کفایت لے سکتی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5370]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
اگر شوہر اپنی اولاد کا پورا خرچہ نہیں دیتا تو اسے بتائے بغیر اتنا خرچہ لیا جا سکتا ہے جو عرف عام میں رائج ہو، یعنی جس سے گزارا چل جائے۔
اگر ہند رضی اللہ عنہا پر خرچہ لازم ہوتا تو آپ اسے حکم دیتے کہ تم خود خرچ کرو، اپنے خاوند کے مال سے کوئی چیز نہ لو، لیکن آپ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا جس کا واضح مطلب ہے کہ بچے کے اخراجات ماں کے ذمے نہیں بلکہ باپ اور اس کے بعد ورثاء اس کے ذمہ دار ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5370
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7161
7161. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ ؓا آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر کوئی گھر انہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق میں اس حد تک ذلت کی خواہش مند ہوتی جتنا آپ کے گھرانے کی ذلت اور رسوائی کی خواہش مند تھی اور اب میں سب سے زیادہ اس امر کی خواہش مند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت وسربلندی میں سب سے زیادہ اونچا ہو۔ پھر انہوں نے کہا: ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ بلا اجازت ان کے مال میں سے اہل وعیال کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7161]
حدیث حاشیہ: 1۔
حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئی تھیں اور انھوں نے بغیر کچھ چھپائے اپنے جذبات کا اس والہانہ انداز میں اظہار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی علم رکھتے تھےکیونکہ اس واقعے سے پہلے ان کی بیٹی حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آچلی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کو مبنی برحقیقت خیال کرتے ہوئےاپنے ذاتی علم کی بنیاد فتوی نہیں دیا بلکہ فیصلہ صادر فرمایا کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لو جتنا تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔
2۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی درج ذیل شرائط کی موجودگی میں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتا ہے اور زیر بحث معاملہ حقوق اللہ سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے متعلق ہو۔
معاشرتی طور پر وہ معاملہ لوگوں میں شہرت یافتہ ہو۔
قاضی اپنے ذاتی کردار کی وجہ سے نیک سیرت اور پاکباز ہو۔
ایسا فیصلہ دینے سے پہلے کسی قسم کے جرم میں سزا یا فتہ نہ ہو۔
تہمت و بدگمانی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
ان شرائط کی موجودگی میں قاضی محض اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7180
7180. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہند بنت عقبہ ؓ نے نبی ﷺ سےکہا: ابو سفیان ؓ بہت کنجوس آدمی ہیں اور مجھے ان کے مال سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دستور کے مطابق تمہیں اتنا لینے کی اجازت ہے جو تمہارے لیے بچوں کے لیے کافی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7180]
حدیث حاشیہ:
1۔
کسی شخص کی عدم موجودگی میں فیصلہ کرنا جائز ہے بشرط یہ کہ فیصلے کا تعلق حقوق العباد سے ہو چنانچہ اگر کسی نے چوری کی، پھر وہ غائب ہوگیا لیکن آثار وقرائن (نشانات وعلامات)
اورگواہوں سے اس کا جرم ثابت ہوگیا تو ایسے حالات میں مال کے متعلق توفیصلہ یکطرفہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ اس کی عدم موجودگی میں نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔
2۔
حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اس وقت مکہ مکرمہ میں موجود تھے لیکن حضرت ہند بنت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب ان کے متعلق شکایت کی تووہ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غیر حاضری میں فیصلہ دیا کیونکہ بیوی کا دعویٰ مبنی برحقیقت تھا۔
واللہ ذعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7180