سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
42. باب فِي الرَّهْنِ
باب: گروی رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3527
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ، وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ؟، قَالَ: هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ، وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا، فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ، وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ، لَا يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ وَلَا يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ، وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ سورة يونس آية 62".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء و شہداء تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے“ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہو گا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہو گا لیکن وہ اللہ کی ذات کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے، قسم اللہ کی، ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے، وہ خود پرنور ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہ ہو گا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہو گا جب کہ لوگ رنجیدہ و غمگین ہوں گے“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون» ”یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں“ (سورۃ یونس: ۶۲)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10661) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگئی ہے، اس باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور ابن داسہ کی روایت میں ہے، لولوی کی روایت میں نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (5012)
وله شاھد حسن عند أبي يعلٰي الموصلي (6110) والنسائي في الكبريٰ (11236) وابن حبان (2508)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3527 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3527
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس حدیث کا کتاب الرہن سے بظاہر کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا۔
سوائے اس کے کہ اہل ایمان میں فی اللہ محبت کی بنا پر بخوشی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔
اور انھیں ایک دوسرے پر کامل اعتماد ہوتا ہے۔
اور رہن دینا لینا کوئی واجب نہیں ہے۔
قرآن مجید میں ہے۔
(فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ) (البقرة:283) اور اگر تم میں سے کوئی دوسرے پر اعتبار کرے تو جس شخص پراعتبار کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت واپس ادا کردے۔
یعنی رہن (گروی) رکھنا۔
ایک دوسرے پر عدم اعتماد اورامانت ودیانت کے فقدان کی دلیل ہے۔
جہاں اس کے برعکس صورت حال ہوگی۔
یعنی ایک دوسرے کی امانت ودیانت پر اعتماد ہوگا۔
وہاں رہن کے بغیر بھی قرض لینے دینے میں نقصان کا خظرہ نہیں ہوگا۔
اور ایسا ہی معاشرہ اسلام کا مثالی معاشرہ ہے۔
اس حدیث میں اسی معاشرے کی طرف اشارہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3527