حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِإِقَامَةٍ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَلَا عَلَى إِثْرِ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1673
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو ان کے درمیان نوافل وغیرہ نہ پڑھے جائیں اور نہ ان کے بعد نفل وغیرہ ہی ادا کرنے چاہئیں کیونکہ جمع کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دوسری کوئی نماز نہ ادا کی جائے۔
یہ تاویل کرنا کہ نماز عشاء کے متصل بعد نفل پڑھنے منع ہیں، اس کے بعد رات کے کسی حصے میں پڑھے جا سکتے ہیں۔
ایسا کرنا محض سخن سازی ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء پڑھ کر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218) (2)
سنت یہی ہے کہ اس رات نماز عشاء دو رکعت ادا کر کے انسان سو جائے۔
اتباع سنت میں خیر و برکت ہے اور قیامت کے دن یہی ذریعۂ نجات ہو گا۔
ان مقامات میں شارع ؑ کو یہ بات محبوب ہے کہ مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا جائے۔
ان کے درمیان یا عشاء کے بعد کوئی نوافل ادا نہ کیے جائیں۔
جس کام سے محبوب راضی ہو، محبت کے دعویدار کو بھی وہ کام ذوق و شوق سے انجام دینا چاہیے، البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مزدلفہ میں نماز مغرب کے بعد دو سنت پڑھتے تھے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1675)
ممکن ہے کہ انہوں نے اسے نماز عشاء کے ساتھ ملا کر نہ پڑھا ہو۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1673
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 482
´مغرب کی نماز کا بیان۔`
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر کو مزدلفہ میں دیکھا، انہوں نے اقامت کہی، اور مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی، پھر اقامت کہی، اور عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر انہوں نے ذکر کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ اسی جگہ میں ایسا ہی کیا، اور ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) اس جگہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 482]
482 ۔ اردو حاشیہ: مغرب کی نماز سفروحضر میں تین رکعت ہی رہتی ہے کیونکہ یہ دن کے وتر ہیں، نصف کرنا ممکن نہیں ہے۔ دورکعا ت پڑھی جائیں تو وترنہیں رہے گی جب کہ عشاء کی نماز سفر میں دورکعت ہو جاتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 482
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 592
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں حمی ۱؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تو میں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہو گئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 592]
592 ۔ اردو حاشیہ: ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی مغرب کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اور عشاء کا وقت آجانے پر دونوں نمازیں پڑھی تھیں۔ گویا سفر میں جمع تاخیر بھی جائز ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 592
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 601
´جمع بین الصلاتین کے احوال و ظروف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 601]
601 ۔ اردو حاشیہ: گویا سفر کی حالت میں آدمی دو نمازیں اکٹھی پڑھ سکتا ہے اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 601
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 661
´جو شخص جمع بین الصلاتین کرے وہ اقامت ایک بار کہے یا دو بار کہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں دو نمازیں جمع کیں (اور) ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک اقامت سے پڑھا ۱؎ اور ان دونوں (نمازوں) سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 661]
661 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں ہر نماز کے لیے الگ اقامت کا ذکر ہے جب کہ پچھلی تین روایات میں دونوں کے لیے ایک اقامت کا ذکر ہے اور یہ چاروں روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ہیں۔ پچھلے باب کی پہلی روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں صراحتاً دو اقامتوں کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی دو اقامتوں کی صراحت آئی ہے، لہٰذا جس روایت میں ایک اقامت کا ذکر ہے اس سے مراد ہر نماز کے لیے ایک اقامت ہو گی یا پھر ایک اقامت والی روایت شاذ ہے۔ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ جب اس طرح تطبیق ممکن ہے تو پھر شذوذ کے دعوے کی ضرورت نہیں، البتہ اذان ایک ہی کافی ہے کیونکہ وہ صرف لوگوں کو بلانے کے لیے ہوتی ہے۔ جمع کی صورت میں دوسری نماز کے لیے لوگ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 661
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3031
´مزدلفہ میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء دونوں ایک ساتھ ایک تکبیر سے پڑھیں، نہ ان دونوں کے بیچ میں کوئی نفل پڑھی، اور نہ ہی ان دونوں نمازوں کے بعد۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3031]
اردو حاشہ:
(1) ”ایک اقامت کے ساتھ“ احناف نے اسی کو اختیار کیا ہے، بشرطیکہ عشاء کی نماز مغرب سے متصل پڑھ لی جائے اور اگر فاصلہ ہو جائے تو عشاء کے لیے الگ اقامت کہی جائے، البتہ عرفات میں ظہر و عصر دو اقامت سے پڑھی جائیں گی کیونکہ عصر اپنے وقت سے پہلے پڑھی جا رہی ہے۔ لیکن احناف کا یہ موقف صحیح نہیں، اس لیے کہ یہی روایت صحیح بخاری (حدیث نمبر 1673) میں بھی ہے، وہاں دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ اقامت کی تصریح موجود ہے اور محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ نے انھیں الفاظ کو ”محفوظ“ قرار دیا ہے، اس لیے راجح اور صحیح موقف یہی ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی صورت میں اقامت الگ الگ ہی کہی جائے گی۔ جمہور اہل علم کا مسلک بھی یہی ہے، البتہ اذان ایک ہی ہوگی۔
(2) ”نوافل ادا نہیں کیے“ دو نمازیں جمع کر کے پڑھنے کی صورت میں نوافل نہیں پڑھے جائیں گے، خواہ حج میں اکٹھی پڑھی جائیں یا عام سفر میں یا (مجبوراً) گھر میں۔ یہ متفقہ اصول ہے۔ نہ درمیان میں، نہ آخر میں، یعنی نہ پہلی نماز کے بعد نہ دوسری کے بعد۔ جمع تقدیم کی صورت ہو، جیسے عرفات میں تھی یا جمع تاخیر کی، جیسے مزدلفہ میں تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3031
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3033
´مزدلفہ میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں ایک اقامت سے پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3033]
اردو حاشہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہی روایت صحیح بخاری میں ”ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت“ کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1673) اور یہی محفوظ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3033
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1929
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تو مالک بن حارث نے ان سے کہا: یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1929]
1929. اردو حاشیہ: اس حدیث میں ایک ہی تکبیر سے دو نمازوں کے پڑھنے کا زکر ہے۔جبکہ ہرنماز کے لئے الگ الگ سے اقامت کہناصحیح تر احادیث سے ثابت ہے۔(صحیح البخاری الحج حدیث۔1673)اسی حدیث کی بابت شیخ البانی کہتے ہیں۔کہ یہ روایت (لکل صلاۃ) (یعنی ہرنماز کےلئے الگ الگ تکبیر کہی) کی زیادتی کے ساتھ صحیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1929
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1931
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم (عرفات سے) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ لوٹے، جب ہم جمع یعنی مزدلفہ پہنچے تو آپ نے ہمیں مغرب اور عشاء، تین رکعت مغرب کی اور دو رکعت عشاء کی ایک اقامت ۱؎ سے پڑھائی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہم سے کہا: اسی طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پڑھائی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1931]
1931. اردو حاشیہ: اس میں بھی ایک اقامت کا زکر ہے۔جو درست نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں گزرا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1931
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1932
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں میں نے سعید بن جبیر کو دیکھا انہوں نے مزدلفہ میں اقامت کہی پھر مغرب تین رکعت پڑھی اور عشاء دو رکعت، پھر آپ نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس مقام پر اسی طرح کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام پر اسی طرح کرتے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1932]
1932. اردو حاشیہ: اس حدیث میں بھی ایک تکبیر کازکر ہے۔جو کہ درست نہیں ہے۔دیکھئے گزشتہ احادیث کے فوائد۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1932
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1933
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سلیم بن اسود ابوالشعثاء محاربی کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ آیا وہ تکبیر و تہلیل سے تھکتے نہ تھے، جب ہم مزدلفہ آ گئے تو انہوں نے اذان کہی اور اقامت، یا ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اذان اور اقامت کہے، پھر ہمیں مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: عشاء پڑھ لو چنانچہ ہمیں عشاء دو رکعت پڑھائی پھر کھانا منگوایا۔ اشعث کہتے ہیں: اور مجھے علاج بن عمرو نے میرے والد کی حدیث کے مثل حدیث کی خبر دی ہے جو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1933]
1933. اردو حاشیہ: علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی بابت لکھتے ہیں کہ (فقال الصلاۃ) (آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا نماز!)کے الفاظ شاذ ہیں۔البتہ(فاقام الصلاۃ) تکبیر کہلوائی کے الفاظ صحیح تر ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1933
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 887
´مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 887]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کے بر خلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے،
واللہ اعلم۔
نوٹ:
(ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 887
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3115
سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، ہم ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ واپس مزدلفہ پہنچے، انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اقامت سے پڑھائیں، پھر پلٹ کر بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ ہمیں اسی طرح نماز پڑھائی تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3115]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
ابن حزم کے نزدیک مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو ایک اذان اور دوتکبیروں کے ساتھ ادا کرنا مسنون ہے۔
امام زفر اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف بھی یہی ہے،
بعض احناف کے نزدیک دونوں کے لیے ایک اذان اور ایک اقامت ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق اورامام خرقی اورابن المنذر کا قول بھی یہ ہے،
بلا اذان ہر نماز کے لیے الگ الگ تکبیر ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہر نماز کے لیے الگ اذان اورالگ تکبیر ہے۔
یہ ابن عمر،
عمر اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فعل ہے اس کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3115