Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
12. باب فِي الصَّرْفِ
باب: بیع صرف کا بیان۔
حدیث نمبر: 3350
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْخَبَرِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، وَزَادَ، قَالَ: فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث کچھ کمی و بیشی کے ساتھ روایت کی ہے، اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ جب صنف بدل جائے (قسم مختلف ہو جائے) تو جس طرح چاہو بیچو (مثلا سونا چاندی کے بدلہ میں گیہوں جو کے بدلہ میں) جب کہ وہ نقدا نقد ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5089) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1587)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3350 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3350  
فوائد ومسائل:

ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے بارے میں اسلام ن جو ضابطہ دیا ہے اس کے حوالے سے آج کل یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔
کہ اگر ایک جنس مثلا کھجور۔
بہتر قسم کی ہو۔
اور دوسری گھٹیا کوالٹی کی ہو تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
اسلام ہر صورت میں عدل وانصاف کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
اسی لئے ان اشیاء کی خریدوفروخت میں جو انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔
خصوصیت کے ساتھ عدل پرزور دیا ہے۔


ہرنوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پرانسان کی بھوک مٹاتی ہے۔
اگر محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کےلئے تبادلہ مقصود ہے تو بلاشک تبادلہ کرلو بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔
تبادلے میں دونوں کی مقدار برابر رکھو یہی انصاف کا تقاضا ہے۔


اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے۔
کہ غذائی ضرورت پوری کرنے میں ایک نوع دوسری سے بہتر ہے مثلا یہ کہ ایک نوع کی نسبتاً کم مقدار دوسری نوع کی زیادہ مقدار کے برابر بھوک مٹاتی ہے۔
یا ایک کا ذائقہ اتنا بہتر ہے کہ دوسری نوع کی زیادہ مقدار پہلی نوع کے مقابلے میں ہونی چاہیےتو عام آدمی کے پاس ایسا کوئی آلہ کوئی ترازو موجود نہیں جو عدل وانصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ عطا فرمایا کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض بیچ دواسی طرح اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو اس طرح عد ل وانصاف کے تقاضے صحیح معنی میں پورے ہوجایئں گے۔
کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جا سکتا۔
قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے۔
کوالٹی کے تعین کےلئے قیمت میں ایک ہی جانبدار او مناسب ترین ذریعہ ہے۔


اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
محض وزن میں کمی زیادتی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے کسی ایک فریق کا حق مارا جائے گا۔
کوالٹی کا فرق متعین کرنے کےلئے وزن کو معیار بنایا جائے۔
تو تراضی یا باہمی رضا مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے ا سی لئے بیع جائز نہیں ہوسکتی۔


اس سلسلے میں ایک اور سوال کافی عرصے سے زیر بحث چلا آرہا ہے کہ برابری دست بدست تبادلے کی شرط محض ان چھ اشیاء کی خریدوفروخت میں ہے۔
یا ان جیسی دوسری اشیاء کی بیع کےلئے بھی ہے۔
ظاہری (وہ لوگ جو قرآن یا حدیث کے ظاہری معنی تک محدودرہتے ہیں۔
)
حدیث میں مذکور محض ان چھ اشیاء کےلئے اس حکم کو محدود رکھتے ہیں۔
باقی اشیاء میں اگر ہم جنس کا تبادلہ کمی بیشی سے ہویا ادھار تو اسے ربوالفضل قرار نہیں دیتے۔
لیکن باقی تمام مکاتب فکردوسری اشیاء کو بھی ان پر قیاس کرتے ہیں۔
اور یہی درست نقطہ نظرہے۔


پاکستان اور ارد گرد کے ملکوں میں جس طرح گندم بنیادی غذائی جنس ہے۔
اس طرح مشرق بعید (ملائشیا۔
انڈونیشیا۔
جاپان کوریا وغیرہ)
میں چاول خورا ک کا بنیادی حصہ (سٹیپل فوڈ) ہے عرب اور ارد گرد کے ممالک میں جو حیثیت کھجور کی ہے۔
پاکستان کے شمالی حصوں بلتستان وغیر ہ میں وہی حیثیت خوبانی کی او بحیرہ روم کے علاقوں میں کشمش کی ہے۔
اس لئے ان اشیاء کو گندم جو اور کھجور پر قیاس کرنا چاہیے۔


قیاس کی بنیادی وجہ (علت قیاس) کے بارے میں البتہ مختلف مکاتب فکر میں اختلاف ہے، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک سوناچاندی (نقدین) پر جن کے لین دین کا دارومدار وزن پر ہے۔
کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
البتہ باقی چار چیزوں پر قیاس ضروری ہے۔


امام املک کے نزدیک جو چیزیں غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔
اور ان کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
ان میں اگر ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے کیا جا رہا ہے۔
تو انہیں حدیث میں مذکور چار غذائی اشیاء پرقیاس کیا جائےگا۔
اور ان کا سودا نقداور برابر کرنا ہوگا۔
امام شافعی مطلقا تمام غذائی اجناس کو ان چار پر قیاس کرتے ہیں۔


احناف کے ہاں حدیث میں چھ کی چھ اشیاء میں بنیادی وجہ قیاس یہ ہے کہ ان کا لین دین ناپ تول کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک ہر وہ شے جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے۔
اس کا حکم وہی ہوگا جو حدیث میں چھ اشیاء کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔

10۔
امام شوکانی کہتے ہیں کہ تمام علمائے اہل بیت کی رائے یہی ہے اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک انہیں سے لیا ہے۔
(نیل الأوطار،کتاب البیوع، باب مایجری فیه الریا)
11۔
اما م مالک کے مسلک میں سب سے زیادہ وسعت اور آسانی پائی جاتی ہے۔
یعنی سونا چاندی یا کرنسی کے علاوہ ان اشیاء کو حدیث میں ذکر کردہ چار اشیاء پر قیاس کرنا چاہیے۔
جو کسی جگہ انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عرب میں بہت سی اشیاء موجود تھیں۔
جن کا لین دین ناپ اور تول کے ذریعے سے ہوتا تھا۔
آپ نے صرف ان چار اشیاء کا نام لیا ہے۔
جو اس معاشرے کی بنیادی غذا تھیں۔
لیکن آپ نے ان میں سے کسی اور چیز کو ان چار چیزوں کے ساتھ شامل نہیں فرمایا۔

12۔
حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انواع مختلف ہونے کی تفصیل بیان فرما دی ہے۔
چاندی کے بدلے سونا جو کے بدلے گندم وغیرہ فروخت کی جائے۔
تو کمی بیشی جائز ہے۔
ادھار جائز نہیں۔

13۔
مدی (میم پرپیش اور دال ساکن ہے)علاقہ شام اور مصر میں مروج غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جس میں 522صاع آتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3350