Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
87. بَابُ التَّهْجِيرِ بِالرَّوَاحِ يَوْمَ عَرَفَةَ:
باب: عرفہ کے دن گرمی میں دوپہر کو روانہ ہونا۔
حدیث نمبر: 1660
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ:" كَتَبَ عَبْدُ الْمَلِكِ إِلَى الْحَجَّاجِ أَنْ لَا يُخَالِفَ ابْنَ عُمَرَ فِي الْحَجِّ، فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَ عَرَفَةَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَاحَ عِنْدَ سُرَادِقِ الْحَجَّاجِ، فَخَرَجَ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ فَقَالَ الرَّوَاحَ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ، قَالَ: هَذِهِ السَّاعَةَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْظِرْنِي حَتَّى أُفِيضَ عَلَى رَأْسِي ثُمَّ أَخْرُجُ، فَنَزَلَ حَتَّى خَرَجَ الْحَجَّاجُ فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي، فَقُلْتُ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَاقْصُرِ الْخُطْبَةَ، وَعَجِّلِ الْوُقُوفَ"، فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: صَدَقَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے سالم نے بیان کیا کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے احکام میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف نہ کرے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عرفہ کے دن سورج ڈھلتے ہی تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ آپ نے حجاج کے خیمہ کے پاس بلند آواز سے پکارا۔ حجاج باہر نکلا اس کے بدن میں ایک کسم میں رنگی ہوئی چادر تھی۔ اس نے پوچھا ابوعبدالرحمٰن! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا اگر سنت کے مطابق عمل چاہتے ہو تو جلدی اٹھ کر چل کھڑے ہو جاؤ۔ اس نے کہا کیا اسی وقت؟ عبداللہ نے فرمایا کہ ہاں اسی وقت۔ حجاج نے کہا کہ پھر تھوڑی سی مہلت دیجئیے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں یعنی غسل کر لوں پھر نکلتا ہوں۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (سواری سے) اتر گئے اور جب حجاج باہر آیا تو میرے اور والد (ابن عمر) کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر سنت پر عمل کا ارادہ ہے تو خطبہ میں اختصار اور وقوف (عرفات) میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ سچ کہتا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1660 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1660  
حدیث حاشیہ:
تشریح:
حجاج عبدالملک کی طرف سے حجاز کا حاکم تھا، جب عبداللہ بن زبیر ؓ پر فتح پائی تو عبدالملک نے اسی کو حاکم بنادیا۔
ابوعبدالرحمن حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی کنیت ہے اور سالم ان کے بیٹے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وقوف عرفہ عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کردینا چاہئے۔
اس وقت وقوف کے لیے غسل کرنا مستحب ہے اور وقوف میں کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہننا منع ہے۔
حجاج نے یہ بھی غلطی کی، جہاں اور بہت سی غلطیاں اس سے ہوئی ہیں، خاص طور پر کتنے ہی مسلمانوں کا خون ناحق اس کی گردن پر ہے۔
اسی سلسلے میں ایک کڑی عبداللہ بن زبیر ؓ کا قتل ناحق بھی ہے جس کے بعد حجاج بیما رہو گیا تھا۔
اور اسے اکثر خواب میں نظر آیا کرتا تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا خون ناحق اس کی گردن پر سوار ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1660   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1660  
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ مقام نمرہ میں وقوف کی جگہ جلدی پہنچنا چاہیے۔
نمرہ ایک جگہ کا نام ہے جو حرم کے بیرونی کنارے اور عرفات کے کنارے کے درمیان ہے۔
یہاں امام قیام کرتا ہے، اسی جگہ پر رسول الله ﷺ کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔
اس دن رسول اللہ ﷺ نے ظہر اول وقت میں ادا کی، پھر نماز عصر اس کے متصل بعد پڑھا دی۔
اس کے بعد غروب آفتاب تک آپ نے وہاں وقوف فرمایا۔
(2)
یہ وقوف حج کا رکن ہے۔
اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔
یہ وقوف عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کر دینا چاہیے، نیز وقوف سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نویں ذوالحجہ کو نماز فجر منیٰ میں ادا فرمائی، طلوع آفتاب کے بعد میدان عرفات کو روانہ ہوئے۔
آپ کے لیے مقام نمرہ میں خیمہ لگا دیا گیا تھا، وہاں قیام فرمایا، زوال آفتاب کے بعد آپ نے ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا اور وقوف عرفہ کے لیے بطن وادی میں تشریف لے آئے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1913)
حضرت سالم بن عبداللہ ؒ نے بھی حجاج بن یوسف کو اس پر مجبور کیا کہ اگر سنت کی پیروری کا ارادہ ہے تو جلدی چلو۔
(فتح الباري: 645/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1660