Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
12. باب مَا جَاءَ فِي يَمِينِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَا كَانَتْ
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کیسی ہوتی تھی؟
حدیث نمبر: 3266
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَيَّاشٍ السَّمَعِيُّ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ دَلْهَمِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاجِبِ بْنِ عَامِرِ بْنِ الْمُنْتَفِقِ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ لَقِيط بْنِ عَامِرٍ، قَالَ دَلْهَمٌ، وَحَدَّثَنِيهِ أَيْضًا الْأَسْوَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطٍ، أَنَّ لَقِيطَ بْنَ عَامِرٍ خَرَجَ وَافِدًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَقِيطٌ: فَقَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ حَدِيثًا فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَمْرُ إِلَهِكَ".
عاصم بن لقیط کہتے ہیں کہ لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد لے کر گئے، لقیط رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی، اس میں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے تمہارے معبود کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11177)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/12) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی اسود اور ان کے والد عبد اللہ دونوں لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
انظر النھاية في الفتن والملاحم بتحقيقي (532، النسخة الأخريٰ 564)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3266 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3266  
فوائد ومسائل:
صحیح بخاری میں بھی اس قسم کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ہے۔
(لعمرالله لنقتلنه)(صحیح بخاری۔
کتاب لایمان والنذور۔
باب قول الرجل لعمر اللہ۔
حدیث 6662)
حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ عمر یہاں حیات کے معنی میں ہے۔
اس لفظ کے ساتھ قسم کھانے والا اللہ کی بقا کے ساتھ قسم کھاتا ہے۔
اور بقا اللہ کی ذاتی صفت ہے۔
اس لئے اس طرح قسم کھانا صحیح ہے۔
(فتح الباری۔
باب مذکور)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3266