سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
73. باب الاِسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَيِّتِ فِي وَقْتِ الاِنْصِرَافِ
باب: قبر سے واپسی کے وقت میت کے لیے استغفار کا بیان۔
حدیث نمبر: 3221
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ، عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ، وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد:بَحِيرٌ ابْنُ رَيْسَانَ.
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8940) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (133)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3221 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3221
فوائد ومسائل:
1۔
سنت ہے کہ دفن کے بعد واپس آتے ہوئے قبر پرمیت کےلئے استغفار اور ثابت قدمی کی دعا کی جائے۔
قبر سے یا قبرستان سے چالیس قدم دور آکر دعا کرنے والی اپج (اختراع) بالکل غلط ہے۔
2۔
قبر میں میت کو زندہ کرکے بٹھا دیا جاتاہے۔
اور اس سے سوال وجواب ہوتاہے۔
تو یہ دعا اس میں ثابت قدمی کےلئے ہوتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3221
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 133
´مسلمان بھائی کے لئے ثابت قدمی کی دعا`
«. . . وَعَن عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ثُمَّ سَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .»
”. . . سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مردے کے دفن سے فارغ ہو جاتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر لوگوں سے فرماتے: ”اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کی دعا مانگو کیونکہ اس وقت اس سے پوچھا جا رہا ہے۔“ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 133]
تحقیق الحدیث: اس حدیث کی سند حسن ہے۔
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔ [المستدرك وتلخيص المستدرك 1؍37]
◄ اس حدیث کی سند میں ابوسعید ہانیِ البربری (مولیٰ عثمان رضی اللہ عنہ) صدوق راوی ہیں۔ [تقریب التہذیب: 7266]
◄ دوسرے راوی عبداللہ بن بحیر بن ریسان ابووائل القاص الصنعانی جمہور محدثین کے نزیدیک موثق ہیں،
لہٰذا حسن الحدیث ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [تهذيب الكمال 33/10] وغیرہ۔
فقہ الحدیث:
➊ میّت کے بعد قبر پر انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح دعا کرنا صحیح ہے۔
➋ قبر میں سوال جواب برحق ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 133
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 470
´میت سے قبر میں باز پرس ہوتی ہے`
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے ہو جاتے اور فرماتے کہ ”اپنے بھائی کیلئے بخشش مانگو اور ثابت قدم رہنے کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے بازپرس کی جائے گی۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 470]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت سے قبر میں باز پرس ہوتی ہے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسنون یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کی دعا کی جائے۔
➌ قبر سے قبرستان سے چالیس قدم دُور آ کر دعا کرنے اور اس کے علاوہ دیگر رسمیں ادا کرنے والی بات بالکل غلط ہے۔ اس کا شریعت اسلامی میں قطعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 470