Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
64. باب فِي الْحَفَّارِ يَجِدُ الْعَظْمَ هَلْ يَتَنَكَّبُ ذَلِكَ الْمَكَانَ
باب: قبر کھودنے والے کو کوئی ہڈی مل جائے تو کیا وہ اس جگہ کو کریدے (یا چھوڑ دے)۔
حدیث نمبر: 3207
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدٍ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ، كَكَسْرِهِ حَيًّا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردے کی ہڈی توڑنا زندے کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الجنائز 63 (1616)، (تحفة الأشراف: 17893)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/58، 100، 105، 168، 200، 264) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: گویا قبر کھودتے وقت اگر پہلے سے کسی میت کی ہڈی موجود ہے تو اسے چھیڑے بغیر دوسری جگہ قبر تیار کی جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (1714)
أخرجه ابن ماجه (1616 وسنده حسن) سعد بن سعيد حسن الحديث

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3207 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3207  
فوائد ومسائل:

قبر کھودنے والے کو قبر کھودتے ہوئے محسوس ہوکہ یہاں پہلے سے کوئی دفن ہے تو مستحب ہے کہ جگہ بدل لے یا ادب واحترام سے ان ہڈیوں کو ایک طرف کردے اور انہیں کسی قسم کی چوٹ نہ لگنے دے۔

موجودہ دور میں پوسٹ مارٹم کے نام سے مردے کی چیر پھاڑ کا کام غیرشرعی ہے۔
انتہائی شدید شرعی مصلحت کے بغیر اسی پرعمل کرنا ناجائز ہے۔

اموات اور قبور کا احترام اسی انداز میں مشروع ہے۔
جو ان احادیث میں بیان ہورہاہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3207   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 467  
´مومن میت کی ہڈی توڑنے کی حرمت`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مردے کی ہڈی توڑنے (کا گناہ) زندہ انسان کی ہڈی توڑنے کے گناہ کی طرح ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 467]
لغوی تشریح:
«فِي الْاِثْمِ» گناہ میں، یعنی مردہ شخص کی ہڈی توڑنا گناہ کے اعتبار سے ایسے ہے جیسے کسی زندہ انسان کی ہڈی توڑنا، نہ کہ درود اور الم و تکلیف کے اعتبار سے۔

فائدہ:
دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بےحرمتی کو ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح اس کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کی عزت و تکریم اور حرمت کو برقرار رکھا ہے۔ موجودہ دور میں پوسٹ مارٹم کے نام سے مردہ انسان کی چیرپھاڑ کا کام غیر شرعی ہے۔ انتہائی شدید شرعی مصلحت کے بغیر اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔
سعودی علمائے کرام نے اس مسئلے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
➊ کسی فوجداری دعویٰ کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔
➋ وبائی امراض کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔
➌ تعلیم و تعلم یعنی اعلیٰ مقاصد کے لیے پوسٹ مارٹم۔
پہلی اور دوسری صورت میں پوسٹ مارٹم جائز ہے کیونکہ ان صورتوں میں امن و امان اور معاشرے کو وبائی امراض سے بچانے کی بہت سی مصلحتیں کارفرما ہیں اور اس میں اس میت کی بےحرمتی کا جو پہلو ہے جس پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو، وہ ان یقینی اور بہت سی مصلحتوں کے مقابلے میں چھپ جاتا ہے۔ باقی رہی تیسری قسم یعنی تعلیمی مقاصد کے لیے پوسٹ مارٹم تو شریعت اسلامیہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مصالح کو زیادہ سے زیادہ حاصل یا جائے اور مفاسد کو کم سے کم کیا جائے، خواہ اس کے لیے دو ضررساں چیزوں میں سے اس کا ارتکاب کرنا پڑے جس کا ضرر کم ہو اور اسے ختم کیا جا سکے جس کا نقصان زیادہ ہو اور جب مصلاح میں تعارض ہو تو اسے اختیار کر لیا جائے گا جو راجح ہو، حیوانی لاشوں کا پوسٹ مارٹم انسانی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا بدل نہیں ہو سکتا اور پوسٹ مارٹم میں چونکہ بہت سی مصلحتیں ہیں جو آج کی علمی ترقی کے باعث طبی مقاصد کے لیے بہت کارآمد ہیں، لہٰذا انسانی لاش کا پوسٹ مارٹم جائز ہے۔ لیکن شریعت نے چونکہ مسلمان کو موت کے بعد بھی اسی طرح عزت و تکریم سے نوازا ہے جس طرح زندگی میں اسے عزت و شرف سے سرفراز کیا ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے اور پوسٹ مارٹم چونکہ عزت و تکریم کے منافی ہے اور اس میں انسانی لاش کی بےحرمتی ہے اور پوسٹ مارٹم کی ضرورت چونکہ غیر معصوم یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کو استعمال کرنے پر اکتفا کیا جائے اور ان کے علاوہ دیگر لاشوں کو استعمال نہ کیا جائے۔ «والله اعلم» تفصیل کے لیے دیکھیے، [فتاويٰ اسلاميه اردو 98، 97/2 مطبوعه دارالسلام لاهور]
سنن ابن ماجہ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی اضافے کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ سنداً ضعیف ہے۔ اور شیخ البانی رحمہ الله اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ کسی راوی کی تفسیر اور وضاحت ہے، تاہم مذکورہ حدیث مومن میت کی ہڈی توڑنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [احكام الجنائز وبدعها للالباني، ص: 296، 295 طبع مكتبة المعارف الرياض وارواء الغليل، رقم: 763]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 467   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1616  
´میت کی ہڈی توڑنے کی ممانعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردے کی ہڈی کو توڑنا زندہ شخص کی ہڈی کے توڑنے کی طرح ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1616]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو ممنوع قراردیا ہے اسی طرح اس کے فوت ہوجانے کے بعد بھی اس کی عزت وتکریم اور حرمت کو برقرار رکھا ہے۔

(2)
موجودہ دور میں پوسٹ مارٹم کے نام سے مردہ انسان کی چیر پھاڑ کا کام غیر شرعی ہے۔
انتہائی شدید شرعی مصلحت کے بغیر اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔
سعودی علمائے کرام نے اس مسئلے کو تین حصوں میں تقیسم کیا ہے۔

      1۔
       کسی فوجداری دعویٰ کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔

      2۔
       وبائی امراض کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔

      3۔
       تعلیم وتعلم یعنی اعلیٰ تعلیمی مقاصد کےلئےپوسٹ مارٹم۔

               پہلی اور دوسری صورت میں پوسٹ مارٹم جائز ہے۔
کیونکہ ان صورتوں میں امن وامان اور معاشرے کو وبائی امراض سے بچانے کی بہت سی مصلحتیں کارفرماہیں۔
اور اس میں اس میت کی بے حرمتی کا جو پہلو ہے۔
جس کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو۔
وہ ان یقینی اور بہت سی مصلحتوں کے مقابلے میں چھپ جاتا ہے۔
باقی رہی تیسری قسم۔
یعنی تعلیمی مقاصد کےلئے پوسٹ مارٹم شریعت اسلامیہ پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے مصالح کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیاجائے۔
اور مفاسد کو کم سے کم کیا جائے۔
خواہ اس کے لئے دو ضرر رساں چیزوں میں سے اس کا ارتکاب کرنا پڑے۔
جس کا ضرر کم اور اسے ختم کیا جاسکے۔
جس کا نقصان زیادہ ہو۔
اور جب مصالح میں تعارج ہو تو اسے اختیار کر لیا جائےگا۔
جو راحج ہو حیوانی لاشوں کا پوسٹ مارٹم انسانی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا بدل نہیں ہوسکتا۔
اور پوسٹ مارٹم میں چونکہ بہت سی مصلحتیں ہیں۔
جو آج کی علمی ترقی کے باعث طبی مقاصد کے لئے بہت کارآمد ہیں۔
لہٰذا انسانی لاش کا پوسٹ مارٹم جائز ہے۔
لیکن شریعت نے چونکہ مسلمان کو موت کے بعد بھی اسی طرح عزیت وتکریم سے نوازا ہے۔
جسطرح زندگی میں اسے عزت وشرف سے سرفراز کیا ہے جیساکہ مذکورہ روایت میں ہے۔
اور پوسٹ مارٹم چونکہ عزت وتکریم کے منافی ہے۔
اور اس میں انسانی لاش کی بے حرمتی ہے ار پوسٹ مارٹم کی ضرورت چونکہ غیر معصوم یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کے آسانی سے میسر آ جانے کی وجہ سے پوری ہوجاتی ہے۔
لہٰذا اس مقصد کے لئے غیر معصوم یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کو استعمال کرنے پر اکتفا کیا جائے۔
اور ان کے علاوہ دیگر لاشوں کو استعمال نہ کیا جائے۔
واللہ أعلم۔
 
(تفصیل کےلئے دیکھئے۔
فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/ 98، 97، مطبوعہ دارالسلام لاہور)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1616