Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
42. باب فِي الْمَيِّتِ يُحْمَلُ مِنْ أَرْضٍ إِلَى أَرْضٍ وَكَرَاهَةِ ذَلِكَ
باب: میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ناپسندیدہ ہے۔
حدیث نمبر: 3165
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا حَمَلْنَا الْقَتْلَى يَوْمَ أُحُدٍ لِنَدْفِنَهُمْ، فَجَاءَ مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَدْفِنُوا الْقَتْلَى فِي مَضَاجِعِهِمْ، فَرَدَدْنَاهُمْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں غزوہ احد کے روز ہم نے مقتولین کو کسی اور جگہ لے جا کر دفن کرنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آ کر اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے ہیں کہ مقتولین کو ان کی مضاجع شہادت گاہوں میں دفن کرو، تو ہم نے ان کو انہیں کی جگہوں پر لوٹا دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجھاد 37 (1717)، سنن النسائی/الجنائز 83 (2006)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 28 (1516)، (تحفة الأشراف: 3117)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/297، 303، 308، 397)، سنن الدارمی/المقدمة 7 (46) (صحیح)» ‏‏‏‏ (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی نبیح لین الحدیث ہیں)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (1704)
ورواه الترمذي (1717 وسنده صحيح، سفيان تابعه شعبة)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3165 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3165  
فوائد ومسائل:
میت کو دفن کرنے کے بعد بغیر کسی اہم مصلحت شرعی کے وہاں سے منتقل کرنا مکروہ ہے۔
(سنن أبي دائود، الجنائز، رقم: 32329) البتہ دفن سے پہلے منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اور بالخصوص شہداء کو وہیں دفن کیا جائے۔
جہاں ان کی شہادت ہوئی ہو یہی افضل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3165   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2007  
´شہید کہاں دفن کیا جائے؟`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مقتولین کو ان کے گرنے کی جگ ہوں میں دفن کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2007]
اردو حاشہ:
(1) اس حکم کی توجیہ حدیث نمبر 2005 کے تحت بیان ہوچکی ہے۔
(2) جنگ احد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد محترم حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تھے، اس لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اس فرمان سے خصوصی تعلق تھا۔
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ اپنے قریبی شہداء کی لاشیں مدینہ لے گئے ہیں، جیسا کہ حدیث: 2006 میں ہے، مزید لاشیں لے جانے کا امکان بھی تھا، اس لیے آپ نے یہ حکم جاری فرمایا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2007   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1516  
´شہداء کی نماز جنازہ اور ان کی تدفین۔`
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ وہ اپنی شہادت گاہوں کی جانب لوٹا دئیے جائیں، لوگ انہیں مدینہ لے آئے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1516]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
شہیدوں کو وہیں دفن کیا جائے۔
جہاں ان کی شہادت ہوئی ہو یہی افضل ہے۔

(2)
خاص ضرورت کے بغیر میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں لے جا کر دفن کرنا مناسب نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1516   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1717  
´مقتول کو قتل گاہ ہی میں دفن کر دینے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک منادی نے پکارا: مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹا دو (دفن کرو) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1717]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حکم شہداء کے لیے خاص ہے،
حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ شہداء موت و حیات اور بعث و حشر میں بھی ایک ساتھ رہیں،
عام میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اشد ضرورت کے تحت منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
شرط یہ ہے کہ نعش کی بے حرمتی نہ ہو اور آب وہوا کے اثر سے اس میں کوئی تغیر نہ ہو،
سعید ابن ابی وقاص کو صحابہ کی موجود گی میں مدینہ منتقل کیا گیاتھا،
کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

نوٹ:
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کے را وی نبیح عنزی لین الحدیث ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1717