سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
40. باب مَا جَاءَ فِي الرِّكَازِ وَمَا فِيهِ
باب: دفینہ کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3085
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ، يُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دفینہ میں خمس (پانچواں حصہ) ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 66 (1499)، والمساقاة 3 (2355)، والدیات 28 (6912)، 29 (6913)، صحیح مسلم/الحدود 11 (1710)، سنن الترمذی/الأحکام 37 (1377)، سنن النسائی/الزکاة 28 (2494)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 4 (2673)، (تحفة الأشراف: 13128، 15147)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العقول 18 (12)، مسند احمد (2/228، 229، 254، 274، 285، 319، 382، 386، 406، 411، 414، 454، 456، 467، 475، 482، 492، 495، 499، 501، 507)، سنن الدارمی/الزکاة 30 (1710)، ویأتی ہذا الحدیث فی الدیات (4593) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی پانچ حصے میں ایک حصہ اللہ و رسول کا ہے باقی چار حصے پانے والے کے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1499) صحيح مسلم (1710)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3085 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3085
فوائد ومسائل:
کسی اجاڑ زمین میں یا قدیم پرانی آبادی میں کسی کا دفن کردہ مال جس کا مالک معلوم نہ ہو رکاز کہلاتا ہے، جسے ایسا مال ملے وہ خمس (پانچواں حصہ) ادا کرنے کے بعد اس کا مالک بن جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3085
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1110
1110- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جانور کے زخمی کرنے کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ معدنیات میں گر کر مرنے کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ کنوئیں میں گر کر مرنے کا کوئی تاوان نہیں ہوگا، اور خزینے میں پانچویں حصے کی ادائیگی لازم ہوگی۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1110]
فائدہ:
اس حدیث میں ہے کہ ہر وہ نقصان جو جانور کے مارنے سے ہو یا کان یا کنویں کے گرنے سے ہو تو اس کی چٹی اور دیت جانور، کان اور کنویں کے مالک پر نہیں ہوگی، کیونکہ مالک نے تو مزدور کو اپنے کام کی غرض سے کام پر لگایا تھا نہ کہ وہ اس کو مارنا چاہتا تھا۔ نیز اس حدیث میں مدفون چیز ملنے پر پانچواں حصہ اس کی زکاۃ دینے کا مسئلہ ہے تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (فتح الباری: 3 / 365)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1109