Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
29. باب فِي إِيقَافِ أَرْضِ السَّوَادِ وَأَرْضِ الْعَنْوَةِ
باب: کافروں سے جنگ میں ہاتھ آ نے والی نیز سواد نامی علاقے کی زمینوں کو مصالح عامہ کے لیے روک رکھنے اور اسے غنیمت میں تقسیم نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3036
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وَأَقَمْتُمْ فِيهَا فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ، ثُمَّ هِيَ لَكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بستی میں تم آؤ اور وہاں رہو تو جو تمہارا حصہ ہے وہی تم کو ملے گا ۱؎ اور جس بستی کے لوگوں نے اللہ و رسول کی نافرمانی کی (اور اسے تم نے زور و طاقت سے زیر کیا) تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کا نکال کر باقی تمہیں مل جائے گا (یعنی بطور غنیمت مجاہدین میں تقسیم ہو جائے گا)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجھاد 5 (1756)، (تحفة الأشراف: 14720)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/317) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی غنیمت کی طرح وہ گاؤں تم میں تقسیم نہ ہو گا، کیونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے بلکہ امام کو اختیار ہے کہ جس کو جس قدر چاہے اس میں سے دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1756)

وضاحت: ۱؎: یعنی غنیمت کی طرح وہ گاؤں تم میں تقسیم نہ ہو گا، کیونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے بلکہ امام کو اختیار ہے کہ جس کو جس قدر چاہے اس میں سے دے۔
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3036 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3036  
فوائد ومسائل:
اس روایت سے بظاہر یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔
کہ قتال کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اراضی خمس نکالنے کے بعد بطورغنیمت مجاہدین میں تقسیم کی جایئں۔
اور اوپر امام ابو دائود اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف اس کے برعکس بیان ہوا ہے۔
اس میں جمع وتطبیق یہی ہے، جیسے کہ امام مالک کا قول ہے۔
کہ ایسی زمینوں کے بارے میں ان سب مسلمانوں کے اتفاق کے بعد جن میں یہ اراضی تقسیم ہونی ہیں، امام المسلمین تصرف کرسکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3036   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4574  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بستی میں جاؤ اور اس میں اقامت اختیار کرو تو اس میں تمہارا حصہ ہو گا اور جس بستی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اس کا پانچواں حصہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، پھر وہ باقی مال تمہارا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4574]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فئي:
واپس آنے اور لوٹنے کو کہتے ہیں،
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(مَااَفَاءَ اللهُ عَليٰ رَسُولِه)
:
جو اموال اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹا دیے اور اصطلاح کی رو سے اس مال کو کہتے ہیں،
جو کافروں سے جنگ کیے بغیر حاصل ہو جائے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
جس بستی پر مسلمان چڑھائی کیے بغیر کافروں پر غالب آ جائیں اور وہ صلح و صفائی سے مال حوالہ کر دیں تو وہ مال فئی ہو گا،
جو سارے کا سارا بیت المال میں جائے گا اور مسلمانوں کے مفادات میں استعمال ہو گا،
اس کو غنیمت کی طرح مجاہدوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا،
لیکن جس بستی کے لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ برسرپیکار ہوں گے اور مسلمان ان پر بزور نازو،
جنگ کے ذریعہ غالب آئیں گے اور ان سے مال حاصل ہو گا تو وہ غنیمت کا مال شمار ہو گا،
اس سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دئیے جائیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4574