سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
9. باب مَا جَاءَ فِي الْبَيْعَةِ
باب: بیعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2942
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زَهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ: وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ صَغِيرٌ فَمَسَحَ رَأْسَهُ".
عبداللہ بن ہشام (انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد پایا تھا) فرماتے ہیں کہ ان کی والدہ زینب بنت حمید رضی اللہ عنہا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! اس سے بیعت کر لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کم سن ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 13 (2501)، والأحکام 46 (7210)، (تحفة الأشراف: 9668)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/233) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7210)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2942 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2942
فوائد ومسائل:
بعیت کوئی رسمی اور تبرکاتی عمل نہیں۔
بلکہ فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے۔
اس لئے انسان کو سوچ سمجھ کر بعیت کرنی چاہیے۔
وہ بعیت جہاد کی ہو یا ہجرت کی یا اعمال صالحہ پر پابندی کی تاہم تیسری قسم کی بعیت (اعمال صالحہ کی پابندی کی بعیت) کا رواج سلف (صحابہ وتابعین) کے عہد میں نہیں تھا۔
اس کا سلسلہ خیرالقرون کے بعد قائم ہوا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2942
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7210
´نابالغ لڑکے کا بیعت کرنا`
«. . . حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ صَغِيرٌ، فَمَسَحَ رَأْسَهُ، وَدَعَا لَهُ، وَكَانَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ . . .»
”. . . ان سے ابوعقیل زہرہ بن معبد نے بیان کیا انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا اور ان کی والدہ زینب بنت حمید ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی تھیں اور عرض کیا تھا یا رسول اللہ! اس سے بیعت لے لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ابھی کمسن ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی کیا کرتے تھے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ: 7210]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7210 کا باب: «بَابُ بَيْعَةِ الصَّغِيرِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے کمسن لڑکے کی بیعت کرنے پر، دراصل اس ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کی منشاء اس کے انعقاد پر دال نہیں ہے بلکہ عدم انعقاد پر ہے۔
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«باب بيعة الصغير أى عدم انعقادها شرعًا، لأنه صلى الله عليه وسلم لم يبايعه، فالترجمة موهمة، و الحديث يزيل إيمامها.» [المتوري على ابواب البخاري: ص 235]
”امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا «باب بيعة الصغير» یعنی شرعاً اس کا عدم انعقاد ہے (کمسنی کی بیعت کا) کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیعت نہیں لی، تو ترجمۃ الباب موہم ہوا اور حدیث اس کا ابہام زائل کرتی ہے، تو یہ صغیر کی بیعت کے عدم انعقاد پر دال ہے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«ولم يذكر الحكم فيه على عادته غالباً، إما اكتفاءً بما بيّن فى حديث الباب . . . . . فقال جماعة من العلماء البيعة لا تلزم إلا من تلزمه عقود الإسلام كلها من البالغين.» [عمدة القاري للعيني: 396/24]
”امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق کمسن بچے کی بیعت پر کسی حکم کو ظاہرنہیں کیا، صرف باب حدیث پر اکتفاء فرمایا، جو اس کے ذریعے واضح ہے . . . . . علماء نے کہا کہ بیعت اس کے لیے لازم ہے جس پر اسلام کی عقود لازم ہوا کرتے ہیں، جو بالغین میں سے ہیں۔“
یعنی خلاصہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں واضح نہیں کیا کہ کمسن سے بیعت لینی چاہیے کہ نہیں؟ بلکہ تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے وہی معنی ہو گا باب کا۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 289
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7210
7210. سیدنا عبداللہ بن ہشام ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کا زمانہ پایا تھا ان کی والدہ سیدہ زینب بنت حمید ؓ انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس سے بیعت لے لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ ابھی کمسن ہے۔“ پھر آپ ﷺ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لیے دعا فرمائی۔ وہ اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7210]
حدیث حاشیہ:
یہی سنت ہے کہ ہر ایک گھر کی طرف سے عید الاضحی میں ایک بکری قربای کی جائے۔
سارے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری بھی کافی ہے۔
اب یہ جو رواج ہو گیا ہے کہ بہت سے بکریاں قربانی کرتے ہیں یہ سنت نبوی کے خلاف اور صرف فخر کے لیے لوگوں نے ایسا کرنا اختیار کرلیا ہے جیسے کتاب الاضحیہ میں گزرچکا ہے۔
حافظ عبد اللہ بن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے بہت مدت تک زندہ رہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7210
7210. سیدنا عبداللہ بن ہشام ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کا زمانہ پایا تھا ان کی والدہ سیدہ زینب بنت حمید ؓ انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس سے بیعت لے لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ ابھی کمسن ہے۔“ پھر آپ ﷺ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لیے دعا فرمائی۔ وہ اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7210]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کے لیے بیعت کرنا ضروری نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ ابھی کمسن ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی اس کی برکت سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحت و سلامتی کے ساتھ بہت دیر تک زندہ رہے۔
(فتح الباري: 248/13)
البتہ بچے اپنے والد کے ہمراہ بیعت کر سکتے ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد گرامی کے ہمراہ آٹھ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔
(عمدة القاري: 457/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7210