صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
70. بَابُ مَنْ لَمْ يَقْرَبِ الْكَعْبَةَ، وَلَمْ يَطُفْ حَتَّى يَخْرُجَ إِلَى عَرَفَةَ، وَيَرْجِعَ بَعْدَ الطَّوَافِ الأَوَّلِ:
باب: جو شخص پہلے طواف یعنی طواف قدوم کے بعد پھر کعبہ کے نزدیک نہ جائے اور عرفات میں حج کرنے کے لیے جائے۔
حدیث نمبر: 1625
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال:" قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ فَطَافَ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا والمروة، وَلَمْ يَقْرَبْ الْكَعْبَةَ بَعْدَ طَوَافِهِ بِهَا حَتَّى رَجَعَ مِنْ عَرَفَةَ".
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور سات (چکروں کے ساتھ) طواف کیا۔ پھر صفا مروہ کی سعی کی۔ اس سعی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ اس وقت تک نہیں گئے جب تک عرفات سے واپس نہ لوٹے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1625 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1625
حدیث حاشیہ:
اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ حاجی کو طواف قدوم کے بعد پھر نفل طواف کرنا منع ہے، نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ دوسرے کاموں میں مشغول ہوں گے اور کعبہ سے دور ٹھہرے تھے یعنی محصب میں۔
اس لئے حج سے فارع ہو نے تک آپ ﷺ کو کعبہ میں آنے کی اور نفل طواف کرنے کی فرصت نہیں ملی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1625
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1625
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی طواف قدوم کے بعد اپنی مصروفیات کے پیش نظر وقوف عرفات سے پہلے بیت اللہ حاضری نہیں دیتا اور نہ نفل طواف ہی کرتا ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ نفل طواف کرنے پر پابندی ہے کیونکہ آپ نے اس دوران میں طواف کرنے سے منع نہیں فرمایا۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وقوف عرفات سے پہلے اس لیے طواف نہ کیا ہو مبادا لوگ اسے واجب خیال کریں جبکہ اسے واجب قرار دینے میں مشقت ہے۔
نفلی طواف کی فضیلت تمام اہل علم کے نزدیک مسلم ہے، البتہ امام مالک کا موقف ہے کہ حاجی کے لیے وقوف عرفات سے پہلے نفل طواف کرنا درست نہیں یہاں تک کہ وہ اپنا حج مکمل کرے۔
انہوں نے اس کے لیے مذکورہ حدیث بطور دلیل پیش کی ہے لیکن یہ موقف اس لیے محل نظر ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنے کے بعد وادی محصب چلے گئے جو کعبہ سے دور تھی، وہاں دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے فراغت حج تک کعبہ میں آنے اور طواف کرنے کی فرصت نہ ملی۔
(2)
ہمارے نزدیک اس مسئلے میں وسعت ہے، لہذا جو شخص طواف قدوم کے بعد طواف کرنا چاہے وہ رات یا دن کے کسی حصے میں بھی طواف کر سکتا ہے، خصوصا دور دراز سے آنے والوں کے لیے تو طواف کرنا ہی بہتر ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1625