تخریج: «أخرجه البخاري، الذبائح والصيد، باب التسمية علي الصيد، حديث:5475، ومسلم، الصيد والذبائح، باب الصيد بلكلاب المعلمة والرمي، حديث:1929.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے کے لیے یا منافع حاصل کرنے کے لیے شکار کرنا جائز ہے۔
2. شکار شکاری کتے سے کیا جائے یا شکاری پرندوں سے، سب جائز ہے اور ان کا کھانا حلال ہے۔
اس کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ ضرور پڑھی جائے۔
دوسری یہ کہ کتا تربیت یافتہ‘ یعنی سدھایا ہوا ہو۔
3. سدھایا ہوا کتا اگر اس شکار میں سے کچھ کھا لے تو شکار حرام ہوجاتا ہے‘ اسے کھانا جائز نہیں رہتا۔
4.شکار کردہ جانور صحیح سالم حالت میں ہے اور کتے نے اس میں سے کچھ نہیں کھایا تو اسے کھانا جائز ہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اگر کتے نے شکار اپنے دانتوں سے پکڑا ہے اور وہ مر گیا ہے تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر کتے کے جسم کی ضرب سے مرے تو حرام ہے۔
5. اگر وہ شکار آدمی کے پہنچنے تک بقید حیات ہو تو اسے ذبح کرنا چاہیے اور اگر مر چکا ہو تو اسی طرح کھانا حلال ہے۔
6. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شکاری کتے کو مالک نے خود بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا ہو۔
اگر ازخود شکار پر ٹوٹ پڑا اور شکار مار بھی لیا تو ایسا شکار حلال نہیں ہوگا۔
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
مگر ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ محض کتے کا سدھایا ہوا ہونا شرط ہے‘ قصد و ارادہ سے چھوڑنا شرط نہیں۔
7. اسی طرح اس حدیث سے شکار کی دوسری چیز نیزہ اور تیر سے شکار کرنا بھی ثابت ہے۔
8.تیر چھوڑتے وقت بھی اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ بسم اللہ کہنا شکار کے لیے واجب ہے‘ البتہ اگر بھول کر بسم اللہ نہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ رائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ اور ایک روایت کی رو سے امام احمد رحمہ اللہ اور صحابۂ کرام میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ ہے کہ دیدہ و دانستہ اور عمداً بسم اللہ چھوڑنے کی صورت میں بھی ایسے شکار کا کھانا حلال ہے۔
ان کے نزدیک ذبح یا شکار کے وقت بسم اللہ پڑھنا سنت ہے فرض نہیں۔
اور ظاہریہ کی رائے تو یہ ہے کہ متروک التسمیۃ شکار کا کھانا بہرصورت حرام ہے۔
9. راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذبیحہ جس پر یقین ہو کہ اللہ کا نام عمداً نہیں لیا گیا اسے نہ کھایا جائے اور شک کی صورت میں‘ اگر ذبح کرنے والا پکا مسلمان ہو تو، بسم اللہ پڑھ کر کھا لینا چاہیے۔
اور جو پرندہ وغیرہ تیر کی ضرب کھا کر پانی میں جا گرے تو اسے نہ کھایا جائے‘ اس لیے کہ اس کی موت واقع ہونے میں شک پیدا ہوگیا ہے کہ آیا وہ تیر لگنے سے مرا ہے یا پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے۔
راویٔ حدیث: «حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ» عدی بن حاتم طائی۔
باپ کی طرح نہایت سخی تھے۔
۷ہجری شعبان کے مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
جب عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہوئے تو یہ اپنی قوم سمیت اسلام کی حقانیت و صداقت پر ثابت قدم رہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو پہلی زکاۃ پہنچی وہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ اور ان کی قوم کی زکاۃ تھی۔
فتح مدائن میں حاضر تھے۔
لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔
جنگ جمل کے موقع پر ان کی آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔
سخاوت اور جود و کرم میں ان کی مثالیں بڑی مشہور و معروف ہیں۔
ایک سو بیس برس زندگی پائی اور ۶۸ ہجری میں وفات پائی۔