سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا
کتاب: قربانی کے مسائل
11. باب فِي النَّهْىِ أَنْ تُصْبَرَ الْبَهَائِمُ وَالرِّفْقِ بِالذَّبِيحَةِ
باب: جانوروں کو بغیر کھانا پانی دئیے باندھ رکھنے کی ممانعت اور قربانی کے جانور کے ساتھ نرمی اور شفقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2815
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: خَصْلَتَانِ سَمِعْتُهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا قَالَ: غَيْرُ مُسْلِمٍ، يَقُولُ: فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ.
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو خصلتیں ایسی ہیں جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ایک یہ کہ: ”اللہ نے ہر چیز کو اچھے ڈھنگ سے کرنے کو فرض کیا ہے لہٰذا جب تم (قصاص یا حد کے طور پر کسی کو) قتل کرو تو اچھے ڈھنگ سے کرو (یعنی اگر خون کے بدلے خون کرو تو جلد ہی فراغت حاصل کر لو تڑپا تڑپا کر مت مارو)“، (اور مسلم بن ابراہیم کے سوا دوسروں کی روایت میں ہے) ”تو اچھے ڈھنگ سے قتل کرو، اور جب کسی جانور کو ذبح کرنا چاہو تو اچھی طرح ذبح کرو اور چاہیئے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 11 (1955)، سنن الترمذی/الدیات 14 (1409)، سنن النسائی/الضحایا 21 (4410)، 26 (4419)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 3 (3170)، (تحفة الأشراف: 4817)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/123، 124، 125)، سنن الدارمی/الأضاحي 10 (2013) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5513) صحيح مسلم (1956)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2815 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2815
فوائد ومسائل:
میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب کے پاس گیا، انہوں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان یا لڑکے ایک مرغی کو کھڑا کر کے اس پر نشانے مار رہے ہیں۔
تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ جانوروں کو باندھا جائے (اور قتل کیا جائے
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2815
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4410
´چھری تیز کرنے کا حکم۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو باتیں یاد کی ہیں، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم پر ہر چیز میں احسان (اچھا سلوک کرنا) فرض کیا ہے، تو جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4410]
اردو حاشہ:
(1) جانور کو ذبح کرنے کے لیے چھری کو تیز کرنا چاہیے تا کہ ذبح ہونے والے جانور کو تکلیف کم ہو۔
(2) امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث قواعد اسلام کی جامع ہے۔ دیکھیے:(صحیح مسلم بشرح النووي:157/13)
(3) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے، اپنی تمام مخلوق کے ساتھ، بے پناہ لطف و کرم پر دلالت کرتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ہی ہے کہ اس نے ضروری قرار دیا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احسان کیا جائے بلکہ اس نے جانوورں تک کے ساتھ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح غلاموں اور مجرموں کے ساتھ بھی، مثلاََ: اگر کسی مجرم کو قصاصاََ قتل کرنے کا حکم ہے، نہ کہ اسے ایذائیں دے دے کر قتل کیا جائے۔ مزید برآں یہ بھی کہ قتل کے مجرم کو بھی کھانے، پینے، پہننے اور زندگی کی دیگر لذتوں سے جو جائز اور مناسب ہوں، محروم نہیں کرنا۔
(4) رسول اللہ ﷺ کے فرمان [إذا ذبَحتُم فأَحْسِنوا] ”جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔“ کی بابت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ذبح کرنے میں جانور کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے۔ ذبح کرنے کی خاطر اسے سختی، اور بے دردی سے نہ گرائے اور نہ اسے گھسٹیتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے، تیز چھری کے ساتھ اسے ذبح کرے۔ (نیز جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔) جانور کو ذبح کرتے ہوئے اسے حلال کرنے اور اس سے تقرب الٰہی حاصل کرنے کی نیت کرے۔ اسے قبلہ رخ لٹائے۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ جلدی جلدی ذبح کرے۔ جانور کا گلا اور اس کی گردن کی رگیں کاٹے۔ اسے آرام پہنچائے اور(ذبح کرنے کے فوراََ بعد اس کا چمڑا اور کھال اتارنا شروع نہ کرے بلکہ) ٹھنڈا ہونے دے۔ (اس کا تڑپنا ختم ہو تو تب اس کی کھال اور چمڑا اتارے۔) اور(اس کے ساتھ ساتھ) اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہو کر اس کے احسان اور فضل و کرم کا اعتراف وا قرار کرے، نیز اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام واحسان پر کہ اس نے یہ جانور(جسے اس نے ذبح کیا ہے) اس کے لیے مسخر کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، نیز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اگر اللہ چاہتا تو(اسے مسخر نہ فرماتا بلکہ) ہم پر مسلط کر دیتا۔ اسی طرح اگر وہ چاہتا تو اس جانور کو ہمارے لیے حلال کرنے کی بجائے ہم پر حرام کر دیتا (پھر ہم اس کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟) اور ربیعہ کہتے ہیں کہ ذبح میں احسان یہ ہے کہ اسے دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے (تاکہ دیکھنے والے کو تکلیف محسوس نہ ہو)۔ امام قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان: [إذا قتَلتُم فأَحْسِنوا القِتْلةَ] ”جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو“ کو ہر چیز کی بابت عموم پر محمول کیا جائےگا، خواہ کسی جانور کو ذبح کرنا ہو یا کسی انسان کو حدود و قصاص میں قتل کرنا اور مارنا ہو۔ (کسی جانور کو ذبح کرنا ہو یا کسی انسان کو قصاص میں قتل کرنا،ہر صورت میں) جلدی جلدی ذبح یا قتل کر دیا جائے اور انھیں تکلیف اور عذاب دے کر نہ مارا جائے۔ دیکھیے: (المفھم: 241،240/5)۔
(5) اگر کسی شخص نے مقتول کو برے طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی برے طریقے سے قتل کیا جائے گا کیونکہ قصاص کا تقاضا یہی ہے۔ یہ بحث، المحاربہ میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4410
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4416
´بدک کر بھاگ جانے والے جانور جس کو پکڑنا ممکن نہ ہو کا بیان۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھا سلوک کرنا) فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور جب تم ذبح کرو تو اپنی چھری کو تیز کر لیا کرو اور ذبیحہ کو (ذبح کرتے وقت) آرام پہنچاؤ۔“ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4416]
اردو حاشہ:
اس حدیث کا تعلق متعلقہ باب کی بجائے آئندہ باب سے ہے اور سنن نسائی میں بہت جگہ ایسے ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4416
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4418
´ذبیحہ کو اچھی طرح ذبح کرنے کا بیان۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر دو باتیں یاد رکھیں ہیں، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھے سلوک اور برتاؤ) فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح کرو اور تم اپنی چھریاں تیز کر لو تاکہ تم اپنے جانور کو آرام دے سکو۔“ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4418]
اردو حاشہ:
”دو باتیں سنیں“ ان سے مراد آئندہ باتیں ہی ہیں، یعنی اچھے طریقے سے قتل کرنا اور اچھے طریقے سے ذبح کرنا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4418
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4419
´ذبیحہ کو اچھی طرح ذبح کرنے کا بیان۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو چیزیں ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھے سلوک اور برتاؤ) کو فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو تو اچھی طرح کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح کرو۔ تم اپنی چھریاں تیز کر لو اور جانور کو آرام دو۔“ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4419]
اردو حاشہ:
ان مذکورہ احادیث کے تفصیلی احکام جاننے کے لیے ملاحظہ فرمائیں، حدیث: 4410 کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4419
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3170
´جب جانور ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ عزوجل نے ہر چیز میں احسان (رحم اور انصاف) کو فرض قرار دیا ہے، پس جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو (تاکہ مخلوق کو تکلیف نہ ہو) اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور چاہیئے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کر لے، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3170]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالی نے موذی جانور اور بعض جرائم کا ارتکاب کرنے والے انسان کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے، اور بعض جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے، اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
(2)
قتل اور ذبح میں بھی رحم کو پیش نظر رکھا جاسکتا ہے، اور رکھا جانا چاہیے۔
(3)
اچھے طریقے سے قتل یہ ہے کہ ایک ضرب سے قتل کیا جائے، یا اگر ایک ضرب سے ممکن نہ ہوتو ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے جلد روح پرواز کرجائے۔
(4)
سزائے موت کے مستحق کے لیے بہترین طریقہ تلوار سے قتل کرنا ہے۔
(5)
موذی جانور کو قتل کرنے کے لیےپانی میں ڈبونے یا آگ میں ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(6)
اچھے طریقے سے ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے زخمی نہ کیا جائے اور کند چھری سے ذبح نہ کیا جائے، نیز پوری طرح روح پرواز کرنے سے پہلےکھال اتارنا شروع نہ کی جائے۔
(7)
جانور کو آرام پہنچانے کا مطلب کم سے کم تکلیف پہنچانا ہے۔
(8)
ذبح کرنے کا شرعی طریقہ کتاب الذبح کی ابتداء میں ملاحظہ فرمائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3170
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1409
´مردہ کے مثلے کی ممانعت کا بیان۔`
شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نے ہر کام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب تم قتل ۱؎ کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تمہارے ہر آدمی کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے“ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1409]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
انسان کو ہر چیز کے ساتھ رحم دل ہونا چاہیے،
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی احسان اور رحم دلی کی تعلیم دی ہے،
رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم جب کسی شخص کو بطور قصاص قتل کرو تو قتل کے لیے ایسا طریقہ اپناؤ جو آسان ہو اور سب سے کم تکلیف کا باعث ہو،
اسی طرح جب کوئی جانور ذبح کرو تو اس کے ساتھ بھی احسان کرو یعنی ذبح سے پہلے چھری خوب تیز کرلو،
بہتر ہوگا کہ چھری تیز کرنے کاعمل جانور کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی ایک جانور دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے،
اسی طرح اس کی کھال اس وقت اتاری جائے جب وہ ٹھنڈا پڑجائے۔
2؎:
حدیث میں قتل سے مراد موذی جانورکا قتل ہے یا بطورقصاص کسی قاتل کو قتل کرنا اورمیدان جنگ میں دشمن کو قتل کرنا ہے،
ان تمام صورتوں میں قتل کی اجازت ہے،
لیکن دشمنی کے جذبات میں ایذا دے دے کر مارنے کی اجازت نہیں ہے،
جیسے اسلام سے پہلے مثلہ کیا جاتا تھا،
پہلے ہاتھ کاٹتے پھرپیر پھر ناک پھرکان وغیرہ،
اسلام نے اس سے منع فرما دیا اورکہا کہ تلوار کے ایک وار سے سرتن سے جدا کرو تاکہ کم سے کم تکلیف ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5055
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے دو باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ اچھا سلوک کرنا لازم ٹھہرایا ہے، سو جب تم قتل کرو، تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھے انداز سے ذبح کرو، تم میں سے ہر شخص کو اپنی چھری تیز کرنی چاہیے اور ذبیحہ کو آرام پہنچانا چاہیے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5055]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کسی کو قتل کرنے کی یا کسی جانور کو ذبح کرنے کی ضرورت ہو،
تو اس کے لیے ایسا اسلوب یا انداز اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے،
جس سے بلاوجہ اور بلا ضرورت مقتول یا ذبیحہ کو تکلیف نہ ہو،
ذبح کے لیے شفرة چھری کو تیز کرنا چاہیے اور اس کو تیزی اور طاقت سے استعمال کرنا چاہیے اور اس کے سامنے چھری تیز نہیں کرنی چاہیے اور اس کو آرام سے ذبح کرنے کی جگہ پر لے جانا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5055