صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
57. بَابُ الرَّمَلِ فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ:
باب: حج اور عمرہ میں رمل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1605
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قال: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قال لِلرُّكْنِ:" أَمَا وَاللَّهِ، إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَلَمَكَ مَا اسْتَلَمْتُكَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ قَالَ: فَمَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ إِنَّمَا كُنَّا رَاءَيْنَا بِهِ الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ أَهْلَكَهُمُ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: شَيْءٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَتْرُكَهُ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو خطاب کر کے فرمایا ”بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔“ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا ”اور اب ہمیں رمل کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا۔“ پھر فرمایا ”جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1605 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1605
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرؓ نے پہلے رمل کی علت اور سبب پر خیال کرکے اس کو چھوڑ دیناچاہا۔
پھر ان کو خیال آیا کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فعل کیا تھا۔
شاید اس میں اور کوئی حکمت ہو اور آپ کی پیروی ضروری ہے۔
اس لیے اس کو جاری رکھا (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1605
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1605
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہر چیز سے مقدم ہے، خواہ اس کی علت ہمارے دماغ میں آئے یا نہ آئے ہمیں اسے عمل میں لانا چاہیے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرت سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔
وہ بہت پابند شریعت اور متبع سنت تھے۔
انہوں نے جب دیکھا کہ حجراسود کو بوسہ دیا جاتا ہے اور بظاہر اس کا کوئی سبب نہیں تو اپنی رائے ترک کر دی اور پتھر کو بوسہ دے کر اتباع سنت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
رمل کے متعلق بھی انہوں نے فرمایا کہ اب اگرچہ اس کا سبب ختم ہو چکا ہے، تاہم اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ اسے عمل میں لایا جائے۔
ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا:
اب رمل اور کندھوں کو ننگا کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ پھر فرمانے لگے:
ممکن ہے کہ اس کی حکمت پر میں مطلع نہ ہو سکا ہوں، پھر انہوں نے رمل کیا۔
اس میں یہی حکمت کافی ہے کہ یہ عمل ایک یادگار کے طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت و قوت اور شان و شوکت سے ہمکنار کیا تھا، یعنی اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی یاد دہانی ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 395/3) (2)
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رمل کیا، حالانکہ اس وقت مشرکین کو اپنی طاقت دکھانا مقصود نہیں تھا۔
اس بنا پر سبب ہو یا نہ ہو رمل کی حیثیت اپنی جگہ برقرار ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1605