سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
114. باب فِي الْخُيَلاَءِ فِي الْحَرْبِ
باب: لڑائی میں غرور اور تکبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2659
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، و موسي بن إسماعيل، المعني وَاحِدٌ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ، فَأَمَّا الَّتِي يُحِبُّهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ وَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ وَإِنَّ مِنَ الْخُيَلَاءِ مَا يُبْغِضُ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُحِبُّ اللَّهُ، فَأَمَّا الْخُيَلَاءُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّهُ فَاخْتِيَالُ الرَّجُلِ نَفْسَهُ عِنْدَ الْقِتَالِ وَاخْتِيَالُهُ عِنْدَ الصَّدَقَةِ وَأَمَّا الَّتِي يُبْغِضُ اللَّهُ فَاخْتِيَالُهُ فِي الْبَغْيِ"، قَالَ مُوسَى: وَالْفَخْرِ.
جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، اور دوسری غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے، رہی وہ غیرت جسے اللہ پسند کرتا ہے تو وہ شک کے مقامات میں غیرت کرنا ہے، رہی وہ غیرت جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ شک کے علاوہ میں غیرت کرنا ہے، اور تکبر میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور دوسرا وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، پس وہ تکبر جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے دوران آدمی کا کافروں سے جہاد کرتے وقت تکبر کرنا اور اترانا ہے، اور صدقہ دیتے وقت اس کا خوشی سے اترانا ہے، اور وہ تکبر جسے اللہ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم میں تکبر کرنا ہے“، اور موسیٰ کی روایت میں ہے: ”فخر و مباہات میں تکبر کرنا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 66 (2559)، (تحفة الأشراف: 3174)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/445، 446) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (3319)
أخرجه النسائي (2559 وسنده حسن) يحيي بن أبي كثير صرح بالسماع عنده
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2659 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2659
فوائد ومسائل:
شبہ کی بنا پر غیرت اس طرح کہ مثلا انسان کسی ایسے شخص کو دیکھے جو غیر محرم ہوتےہوئے اس کی بیوی یا بیٹی وغیر ہ کے ساتھ آزادانہ میل جول بڑھاتا ہے۔
اور ہنسی مذاق کرتا ہے۔
اس حال میں غیرت کا اظہار مطلوب اور اللہ کو محبوب ہے۔
اور بغیر کسی شبہ کے غیرت مثلا کوئی کسی کی ماں یا بہن سے عقد شرعی کرنا چاہے تو اس پر غیرت کھانے کے کوئی معنی نہیں کیونکہ یہ عمل عین شریعت کا مطلوب ہے۔
بڑائی اور تکبر کا اظہار کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی ہیبت بڑھانے کےلئے مطلوب و محبوب ہے۔
یوں کہ انسان انتہائی اعتماد وثبات سے کفار پر حملہ آور ہوا اور اس کی چال ڈھال سے کسی کمزوری یا مرعوبیت کا ظہار نہ ہو۔
اور صدقہ دینے میں بڑائی یہ ہے کہ خوش دلی سے دے۔
اس عمل کو اللہ کا انعام سمجھے اور جو دے اسے کم سمجھے اور فقروفاقہ کا اندیشہ نہ رکھتا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2659
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2559
´صدقہ میں فخر کرنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے، (ایسے ہی) ایک فخر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور ایک فخر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، تو جس غیرت کو اللہ پسند کرتا ہے وہ تہمت کی جگہ کی غیرت ہے، اور وہ غیرت ۱؎ جو اللہ عزوجل کو ناپسند ہے تو وہ غیر تہمت کی جگہ کی غیرت ہے ۲؎ رہا فخر جو اللہ کو پسند ہے تو وہ آدمی کا لڑائی کے وقت یا ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2559]
اردو حاشہ:
(1) ”تہمت کے مقام پر۔“ یعنی جس کام سے انسان شرعاً یا عرفاً متہم قرار پاتا ہو اس کام کو غیرت کی بنا پر چھوڑ دیا جائے، مثلاً: بدنام لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا۔ مے خانے اور جوا خانے میں بیٹھنا اور اسی طرح غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی اور خلوت اختیار کرنا وغیرہ۔
(2) ”پسندیدہ فخر۔“ لڑائی کے وقت فخریہ ہے کہ اپنی قوت و جرأت کا اظہار کرے تاکہ کفار مرعوب ہوں۔ فخریہ اشعار پڑھنا بھی اس میں داخل ہے۔ اور صدقے کے وقت فخریہ ہے کہ خوب دل کھول کر صدقہ کرے، بلکہ صدقے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھے، کبھی کبھار دوسرے کو اپنے سے آگے بڑھنے کا چیلنج کرے۔ یاد رکھیے! اس سے ریا کاری یا وسائل پر فخر کرنا مراد نہیں کہ وہ تو گناہ کبیرہ ہے۔ ناجائز کام پر خرچ کرنا حرام ہے، خواہ ایک پیسہ ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2559