Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
112. باب فِيمَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الصَّمْتِ عِنْدَ اللِّقَاءِ
باب: دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت خاموش رہنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 2656
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ. ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُونَ الصَّوْتَ عِنْدَ الْقِتَالِ.
قیس بن عباد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قتال کے وقت آواز ۱؎ ناپسند کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9128) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: دوران قتال آواز کرنے سے مراد مجاہدین کا آپس میں ایک دوسرے کو بآواز بلند نام لے کر پکارنا یا ایسے الفاظ سے پکارنا ہے جس سے وہ فخر و غرور میں مبتلا ہو جائیں، اسے صحابہ ناپسند کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قتادة و الحسن البصري عنعنا
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 97

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2656 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2656  
فوائد ومسائل:

یہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک ضعیف ہے۔
البتہ شیخ البانی اس کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ یہ روایت مرفوع نہیں موقوف صحیح ہے۔


دوران قتال بے معنی تکبر آمیز ڈینگیں مارنا اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔
تاہم مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے۔
بلند رکھنے۔
آگےبڑھنے کی دعوت دینے اورکفار کو دہانے کےلئے حسب احوال کچھ کہنا جائز اور مطلوب ہے۔
خود رسول للہ ﷺ کا یہ رجز دوران قتال ہی کا ہے۔
(أنا النبيُّ لا كذب أنا ابنُ عبدِ المطلبِ) (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 3042) ایسے ہی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بار اپنے مقابل سے کہا تھا۔
یہ لو! اور میں اکوع کافرزند ہوں۔
(صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 3041) اور سب سے افضل عمل اللہ کا ذکر ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2656