سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
109. باب فِي الْجَاسُوسِ الذِّمِّيِّ
باب: مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے ذمی کافر کا حکم کیا ہے؟
حدیث نمبر: 2652
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُحَبَّبٍ أَبُو هَمَّامٍ الدَّلَّالُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ حَيَّانَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِهِ، وَكَانَ عَيْنًا لِأَبِي سُفْيَانَ وَكَانَ حَلِيفًا لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَمَرَّ بِحَلَقَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَقُولُ إِنِّي مُسْلِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالًا نَكِلُهُمْ إِلَى إِيمَانِهِمْ مِنْهُمْ فُرَاتُ بْنُ حَيَّانَ".
فرات بن حیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، یہ ابوسفیان کے جاسوس اور ایک انصاری کے حلیف تھے ۱؎، ان کا گزر حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے کچھ انصار کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، ایک انصاری نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہم انہیں ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، ان ہی میں سے فرات بن حیان بھی ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11022)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/336) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک انصاری کے حلیف ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرات بن حیان کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ذمی جاسوس کو قتل کرنا صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 96
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2652 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2652
فوائد ومسائل:
1۔
مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اظہار ایمان کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔
اگر وہ مخلص ہوں گے تو عند اللہ معزز اور اس کے برعکس ہوں گے۔
تو عند اللہ مجرم۔
لیکن ہم اس کے ساتھ اس کے ظاہر کے مطابق معاملہ کریں گے۔
اس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اسلامی مملکت عوام کے ظاہری حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔
کیونکہ باطن کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔
اور وہی قیامت کے دن اس کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔
اسی لئے کہا جاتا ہے۔
(نحن نحكم بالظواهر والله يتولی السرائر) ہم صرف ظاہری حالات پر حکم لگا سکتے ہیں۔
جبکہ پوشیدہ معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔
2۔
کافر جاسوس کے قتل کر دینے پر اتفاق ہے۔
مگر مسلمان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔
خواہ منافق ہی ہو۔
3۔
باب میں ذمی جاسوس کا ذکر ہے۔
جب کہ حدیث میں حضرت فرات کے ذمی ہونے کی صراحت نہیں ہے۔
لیکن یہی روایت منتقی الاخیار میں مسند احمد کے حوالے سے ہے۔
اس میں صراحت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کے قتل کا حکم دیا۔
وکان ذمیاً اور وہ ذمی تھے۔
ان الفاظ سے باب کے ساتھ مناسبت بھی واضح ہوجاتی ہے۔
اور ذمی جاسوس کے قتل کرنے جواز بھی (عون المعبود)
4۔
فرات بن حیان نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
اور بہت عمدہ مسلمان ثابت ہوئے۔
ہجرت کی اوررسول اللہ ﷺ کے حین حیات آپ کی معیت میں جہاد کرتے رہے۔
بعد ازاں کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2652