Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
105. باب النَّهْىِ عَنْ قَتْلِ، مَنِ اعْتَصَمَ بِالسُّجُودِ
باب: جو سجدہ کر کے پناہ حاصل کرے اس کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 2645
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ:" أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ هُشَيْمٌ، وَمَعْمَرٌ، وَخَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ، وجماعة لم يذكروا جريرا.
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے نصف دیت ۱؎ کا حکم دیا اور فرمایا: میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی (یعنی اسلام اور کفر کی) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشیم، معمر، خالد واسطی اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے جریر کا ذکر نہیں کیا ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/السیر 42 (1605)، سنن النسائی/القسامة 21 (4784) (عن قیس مرسلا)، (تحفة الأشراف: 3227) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: نصف دیت کا حکم دیا اور باقی نصف کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں نصف دیت ساقط ہو گئی۔
۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں: ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علیحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل وصورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔
۳؎: یعنی: ان لوگوں نے اس حدیث کو «عن قیس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم » مرسلاً روایت کیا ہے، بخاری نے بھی مرسل ہی کو صحیح قرار دیا ہے مگر موصول کی متابعات صحیحہ موجود ہیں جیسا کہ البانی نے (ارواء الغلیل، حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں) ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة العقل

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
ترمذي (1604)
أبو معاوية الضرير عنعن
وللحديث طرق ضعيفة كلھا
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 96

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2645 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2645  
فوائد ومسائل:

یہ روایت ضعیف ہے، مگر بعض آئمہ کے نزدیک صحیح ہے۔
البتہ اس میں نصف دیت والا ٹکڑا صیح نہیں ہے۔


حدیث کا آخری جملہ (لاتراءی ناراهما) کا لفظی ترجمہ یہ ہوسکتا ہے۔
کہ ان دونوں یعنی مسلمانوں اور کافروں کی آگیں بھی نظر نہیں آنی چاہیں۔
علامہ خطابی نے اس کی توضیح میں تین قول لکھے ہیں۔
(الف) مسلمان اور کافر برابر نہیں۔
اور ان کا حکم ایک جیسا نہیں (ب) مسلمانوں کو کافروں سے اس حد تک دور رہنا چاہیے کہ آگ جلائی جائے تو نظر نہ آئے۔
اس معنی سے استدلال کیا جاتا ہے کہ دارالحرب میں کسی اشد ضرورت کے پیش نظر چار دن سے زیادہ اقامت نہ کی جائے۔
(ج) یعنی اہل لغت یہ ترجمہ کرتے ہیں۔
کہ ان دونوں (مسلمان اور مشرک) میں کوئی مشابہت ومماثلت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ معنی عرب کے اس اسلوب کلام سے ماخوذ ہے جس میں وہ بولتے (ما نار بعيرك) تیرے اونٹ کی علامت اوراس کا حال کیسا ہے؟ (نارھا تجارھا) اس کی اونچی کوہان پر دیا گیا داغ اس کے اصیل ہونے کی علامت ہے۔


جب کوئی شخص کسی طرح اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کردے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہوجاتا ہے۔


کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کے کفار کے ملک میں بالخصوص دارالحرب میں مستقل سکونت اختیار کرے۔


واجب ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور عمل کے علاوہ عادات وثقافت میں بھی کفار سے نمایاں رہے اور ان کی مشابہت ومماثلت اخیتار نہ کرے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2645   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1084  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا جریر بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں قیام پذیر ہو۔ اسے تینوں نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے مگر بخاری نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1084»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الجهاد، باب النهي عن قتل من اعتصم بالسجود، حديث:2645، والترمذي، السير، حديث:1604، والنسائي، القسامة، حديث:4784 من حديث قيس بن أبي حازم مرسلًا.* أبو معاوية الضرير عنعن وله طرق ضعيفة كلها.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر ارواء الغلیل میں تفصیلاً بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۵ /۲۹.۳۳‘ رقم:۱۲۰۷) 2. مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہو جائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں۔
اس فعل پر انھیں مجرم قرار نہیں دیا جائے گا۔
3.جب حالات کشیدہ ہوں تو مشرکین کے علاقوں سے ہجرت کرنا واجب ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت جریر بَجَلی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوعمرو ہے۔
سلسلۂنسب یوں ہے: جریر بن عبداللہ بن جابر بجلی۔
بجلی کے با اور جیم دونوں پر فتحہ ہے۔
۱۰ ہجری میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آمد پر ان کے اعزاز کے لیے کپڑا بچھایا تھا۔
انھیں ذوالخلصہ بت کو منہدم کرنے کے لیے بھیجا تو انھوں نے اسے گرا دیا۔
آپ کے زمانے میں انھیں یمن پر عامل مقرر کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا اس روز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے دیدار سے کبھی محروم نہیں رکھا اور مجھے ہمیشہ مسکراکر دیکھا۔
ان کی جوتی کا سائز ایک ہاتھ کے برابر تھا۔
مدائن کی فتح کے موقع پر حاضر تھے۔
اور جنگ قادسیہ میں انھیں فوج کے میمنہ پر متعین کیا گیا۔
انھیں اس امت کے یوسف کا لقب دیا گیا۔
۵۲ یا ۵۴ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1084   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1604  
´کفار و مشرکین کے درمیان رہنے کی کراہت کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا: میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آخر کیوں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیئے کہ) وہ دونوں ایک دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1604]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہوجائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں،
اور دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق مشرکین کے گھروں اور علاقوں سے ہجرت کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلام اورکفر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
آدھی دیت کا حکم اس لیے دیا کیونکہ باقی آدھی کفارکے ساتھ رہنے کی وجہ سے بطور سزا ساقط ہوگئی۔

نوٹ:
(متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے،
دیکھئے:
الارواء:
رقم 1207)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1604