Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
52. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الْكَعْبَةِ:
باب: کعبہ کے اندر نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1599
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْكَعْبَةَ مَشَى قِبَلَ الْوَجْهِ حِينَ يَدْخُلُ وَيَجْعَلُ الْبَابَ قِبَلَ الظَّهْرِ يَمْشِي، حَتَّى يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ الَّذِي قِبَلَ وَجْهِهِ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِ أَذْرُعٍ فَيُصَلِّي يَتَوَخَّى الْمَكَانَ الَّذِي أَخْبَرَهُ بِلَالٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ، وَلَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَأْسٌ أَنْ يُصَلِّيَ فِي أَيِّ نَوَاحِي الْبَيْتِ شَاءَ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے۔ آپ اسی طرح چلتے رہتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز پڑھی تھی۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کعبہ میں جس جگہ بھی کوئی چاہے نماز پڑھ لے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1599 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1599  
حدیث حاشیہ:
(1)
بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے لیے اس کی تمام جوانب برابر کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اگرچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نشاندہی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن یمانی کی جانب دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی، تاہم یہ تعیین قصدا نہیں بلکہ اتفاقا تھی، ایسا کرنا تخییر کے منافی نہیں۔
اگر آپ نے قصدا بھی ایسا کیا ہو تو بھی لزوم کے درجے میں نہیں تھا۔
(2)
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
(باب الصلاة بين السواري في غير جماعة)
\"ستونوں کے درمیان جماعت کے بغیر انفرادی نماز پڑھنا مشروع ہے۔
\" (صحیح البخاری،الصلاۃ،باب: 96)
حدیث کے آخر میں وضاحتی بیان کے متعلق احتمال ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہو یا کسی اور راوی نے یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کیا ہو۔
(فتح الباری: 3/589) w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1599