Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
81. باب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا رَكِبَ
باب: سواری پر چڑھتے وقت سوار کیا دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 2602
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:" سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ فَقِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي".
علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا، اور «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون» کہا، پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا، پھر تین مرتبہ «الله اكبر» کہا، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا، پھر ہنسے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدعوات 47 (3446)، (تحفة الأشراف: 10248)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری / (8799)، الیوم واللیلة (502)، مسند احمد (1/97، 115، 128) (صحیح لغیرہ) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 7/354)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (2434)
أبو إسحاق السبيعي صرح بالسماع عند البيھقي (5/252)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2602 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2602  
فوائد ومسائل:
اسلام انسان کا مذاج ایسا بنا دینا چاہتا ہے۔
کہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہ گزرے جس سے وہ اپنے خالق ومالک سے غافل ہو۔
چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے۔
اور اسی طرح جس طرح رسول اللہ ﷺنے کر کے دیکھایا ہے۔
اسے بقدر امکان اختیار کیا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2602   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3446  
´اونٹنی پر سوار ہو تو کیا پڑھے؟`
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی الله عنہ کے پاس موجود تھا، انہیں سواری کے لیے ایک چوپایہ دیا گیا، جب انہوں نے اپنا پیر رکاب میں ڈالا تو کہا: «بسم اللہ» میں اللہ کا نام لے کر سوار ہو رہا ہوں اور پھر جب پیٹھ پر جم کر بیٹھ گئے تو کہا: «الحمد للہ» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، پھر آپ نے یہ آیت: «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے قابو میں کیا ورنہ ہم ایسے نہ تھے جو اسے ناتھ پہنا سکتے، لگام دے سکتے، ہم اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانے والے ہیں، پڑھی، پھر تین بار «الحمد للہ» کہا، او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3446]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ صرف اونٹنی کے ساتھ خاص نہیں ہے،
کسی بھی سواری پرسوار ہوتے وقت یہ دعاء پڑھنی مسنون ہے،
خود باب کی دونوں حدیثوں میں اونٹنی کا تذکرہ نہیں ہے،
بلکہ دوسری حدیث میں توسواری کا لفظ ہے،
کسی بھی سواری پر صادق آتا ہے۔

2؎:
پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے قابو میں کیا ورنہ ہم ایسے نہ تھے جو اسے ناتھ پہنا سکتے،
لگام دے سکتے،
ہم اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانے والے ہیں۔

3؎:
پاک ہے تو اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان کے حق میں ظلم و زیادتی کی ہے تو مجھے بخش دے،
کیوں کہ تیرے سوا کوئی ظلم معاف کرنے والا نہیں ہے۔

نوٹ:
(سند میں ابو اسحاق مختلط راوی ہیں،
اس لیے اس کی روایت میں اضطراب کا شکار بھی ہوئے ہیں،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،
ملاحظہ ہو:
صحیح أبي داؤد رقم: 2342)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3446