Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
79. باب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَافَرَ
باب: سفر کے وقت آدمی کیا دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 2599
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَلِيًّا الأَزَدِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بِعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ كَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الْبُعْدَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ، وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِيهِنَّ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجُيُوشُهُ إِذَا عَلَوْا الثَّنَايَا كَبَّرُوا وَإِذَا هَبَطُوا سَبَّحُوا فَوُضِعَتِ الصَّلَاةُ عَلَى ذَلِكَ.
علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سیدھے بیٹھ جاتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے، پھر یہ دعا پڑھتے: «‏‏‏‏{‏ سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون ‏}‏ اللهم إني أسألك في سفرنا هذا البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم ہوں علينا سفرنا هذا اللهم اطو لنا البعد اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل والمال» پاک ہے وہ اللہ جس نے اس (سواری) کو ہمارے تابع کر دیا جب کہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہیں تھے، اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، اے اللہ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ اور پسندیدہ اعمال کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! ہمارے اس سفر کو ہمارے لیے آسان فرما دے، اے اللہ! ہمارے لیے مسافت کو لپیٹ دے، اے اللہ! تو ہی رفیق سفر ہے، اور تو ہی اہل و عیال اور مال میں میرا قائم مقام ہے، اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو مذکورہ دعا پڑھتے اور اس میں اتنا اضافہ کرتے: «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون» ہم امن و سلامتی کے ساتھ سفر سے لوٹنے والے، اپنے رب سے توبہ کرنے والے، اس کی عبادت اور حمد و ثنا کرنے والے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر کے لوگ جب چڑھائیوں پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے، پھر نماز بھی اسی قاعدہ پر رکھی گئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 75 (1342)، سنن الترمذی/الدعوات 47 (3447)، (تحفة الأشراف: 7348)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/144، 150)، سنن الدارمی/الاستئذان 42 (2715) (صحیح)» ‏‏‏‏ (مؤلف کے سوا کسی کے یہاں «وکان النبي صلی اللہ علیہ وسلم وجیوشہ الخ» کا جملہ نہیں ہے، اور یہ صحیح بھی نہیں ہے، ہاں اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے کی دعا کی موافقت دوسری صحیح احادیث سے موجود ہے)

وضاحت: ۱؎: چنانچہ رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» اور اٹھتے وقت «الله أكبر» کہا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فوضعت م دون العلو والهبوط فهو حديث آخر صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1342)

وضاحت: ۱؎: چنانچہ رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» اور اٹھتے وقت «الله أكبر» کہا جاتا ہے۔
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2599 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2599  
فوائد ومسائل:

توحید یہی ہے کہ انسان کسی بھی موقع پر اپنے رب تعالیٰ کو بھولنے نہ پائے۔
اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اسی میں ہے۔
کہ ہر ہر عمل میں آپ ﷺ کی اقتداء کی جائے۔


حدیث کا جملہ (فوضعت الصلوة علیٰ ذلك) اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے۔
ضعیف ہے۔
(علامہ البانی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2599   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3447  
´اونٹنی پر سوار ہو تو کیا پڑھے؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر فرماتے تو اپنی سواری پر چڑھتے اور تین بار «اللہ اکبر» کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے: «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» ۱؎ اس کے بعد آپ یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك في سفري هذا من البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم ہوں علينا المسير واطو عنا بعد الأرض اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا» اے اللہ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا طالب ہوں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے تو راضی ہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3447]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا طالب ہوں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے تو راضی ہو،
اے اللہ تو اس سفر کو آسان کر دے،
زمین کی دوری کو لپیٹ کر ہمارے لیے کم کر دے،
اے اللہ تو سفر کا ساتھی ہے،
اور گھر میں (گھر والوں کی دیکھ بھال کے لیے) میرا نائب وقائم مقام ہے،
اے اللہ! تو ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں رہ،
اور گھر والوں میں ہماری قائم مقامی فرما۔

2؎:
ہم لوٹنے والے ہیں اپنے گھروالوں میں إِنْ شَاءَ اللہ،
توبہ کرنے والے ہیں،
اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں،
حمد بیان کرنے والے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3447   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3275  
علی ازدی رضیس اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں سکھایا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر باہر روانہ ہونے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے، تین دفعہ اَللہُ اَکْبَر [صحيح مسلم، حديث نمبر:3275]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وَعثَا:
مشقت وشدت،
كَآبَةٌ:
رنج دہ اور پریشانی کا باعث بات۔
(2)
اَلْمُنْقَلَبُ:
واپس لوٹنا۔
فوائد ومسائل:
اس دعا کا ایک ایک کلمہ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے،
اس لیے یہ ایک انتہائی بلیغ اور جامع دعا ہے۔
اس دور اور زمانہ کی بہترین اور اعلیٰ سواری اونٹ تھا جو صحرائی جہاز کہلاتا تھا اس لیے اس پر سوار کو اپنی بلندی اور برتری کا احساس یا گھمنڈ پیدا ہو سکتا تھا،
اس طرح دیکھنے والوں کے دلوں میں اس کی عظمت اور برائی کا خیال پیدا ہو سکتا،
جس طرح آج کل ہوائی جہاز اور بہترین گاڑیوں پر سوارہونے والوں کا حال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اَللہُ اَکْبَر کہہ کر اس پر تین ضربیں لگائیں اور بتا دیا عظمت و کبریائی صرف اللہ کے لیے ہے،
اگلے جملہ میں اس حقیقت کا اعتراف اور اظہار فرمایا کہ اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردینا اور ہم کو اس کے استعمال کی قدرت دینا بھی اللہ کا فضل و کرم ہے،
ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں اس کے احسان و کرم کے بغیر کہیں بھی ہر قسم کی سواری بے قابو ہو سکتی ہے اور انسان کی تباہی اور موت کا باعث بن سکتی ہے،
اس کے بعد فرمایا جس طرح ہم آج اس سفر پر روانہ ہو رہے ہیں اسی طرح ایک دن اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر ہم اپنے آقا اور رب کے حضور پیش ہونے والے ہیں جو اس زندگی کا حاصل اور مقصود و مطلوب ہے،
اس لیے ہمیں اس کی فکرو اہتمام اور تیاری سے کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے،
اس لیے آپ صلی اللہ علی وسلم نے اس کے بعد یہ دعا فرمائی اے اللہ!اس سفر میں مجھے نیکی اور پرہیز گاری کی اور ان اعمال کی توفیق عنایت فرما جو تیری رضا اور خوشنودی کے حصول کا باعث ہوں اس کے بعد سفر میں سہولت و آسانی اور اس کے جلد پورا ہونے کی دعا فرمائی اس کے بعد یہ عرض کیا کہ سفر میں میرا اعتماد و بھروسہ تیری ہی رفاقت و مدد پر ہے اور گھر بار اہل وعیال اور مال ومتاع جس کو میں چھوڑکر جا رہا ہوں ان کا نگران و نگہبان بھی تو ہی ہے،
پھر آخر میں سفر کی مشقت و زحمت سے یا دوران سفر یا واپسی پر کسی تکلیف دہ حادثہ سے پناہ مانگی ہے،
اور سفر سے واپسی پر بھی یہی دعا فرمائی اور آخر میں ان کلمات کا اضافہ فرمایا کہ ہم واپس ہو رہے،
اپنے قصوروں اور لغزشوں سے توبہ کرتے ہیں اور ہم اپنے آقا و مولیٰ کی ہی عبادات اور حمدو ثنا کرتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3275