Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
48. بَابُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ:
باب: کعبہ پر غلاف چڑھانا۔
حدیث نمبر: 1594
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قال: جِئْتُ إِلَى شَيْبَةَ. ح وحَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قال:" جَلَسْتُ مَعَ شَيْبَةَ عَلَى الْكُرْسِيِّ فِي الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: لَقَدْ جَلَسَ هَذَا الْمَجْلِسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ إِلَّا قَسَمْتُهُ، قُلْتُ: إِنَّ صَاحِبَيْكَ لَمْ يَفْعَلَا، قَالَ: هُمَا الْمَرْءَانِ أَقْتَدِي بِهِمَا".
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے واصل احدب نے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند) اور ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے واصل سے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1594 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1594  
حدیث حاشیہ:
قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ لَيْسَ فِي حَدِيثِ الْبَابِ لِكِسْوَةِ الْكَعْبَةِ ذِكْرٌ يَعْنِي فَلَا يُطَابِقُ التَّرْجَمَةَ وَقَالَ بن بطالمَعْنَى التَّرْجَمَةِ صَحِيحٌ وَوَجْهُهَا أَنَّهُ مَعْلُومٌ أَنَّ الْمُلُوكَ فِي كُلِّ زَمَانٍ كَانُوا يَتَفَاخَرُونَ بِكِسْوَةِ الْكَعْبَةِ بِرَفِيعِ الثِّيَابِ الْمَنْسُوجَةِ بِالذَّهَبِ وَغَيْرِهِ كَمَا يَتَفَاخَرُونَ بِتَسْبِيلِ الْأَمْوَالِ لَهَا فَأَرَادَ الْبُخَارِيُّ أَنَّ عُمَرَ لَمَّا رَأَى قِسْمَةَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ صَوَابًا كَانَ حُكْمُ الْكِسْوَةِ حُكْمَ الْمَالِ تَجُوزُ قِسْمَتُهَا بَلْ مَا فَضَلَ مِنْ كِسْوَتِهَا أَوْلَى بِالْقِسْمَةِ وَقَالَ بن الْمُنِيرِ فِي الْحَاشِيَةِ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مَقْصُودَهُ التَّنْبِيهُ عَلَى أَنَّ كِسْوَةَ الْكَعْبَةِ مَشْرُوعٌ وَالْحُجَّةُ فِيهِ أَنَّهَا لَمْ تَزَلْ تُقْصَدُ بِالْمَالِ يُوضَعُ فِيهَا عَلَى مَعْنَى الزِّينَةِ إِعْظَامًا لَهَا فَالْكِسْوَةُ مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ۔
(فتح الباري)
تشریح:
بیت اللہ شریف پر غلاف ڈالنے کا رواج بہت قدیم زمانہ سے ہے۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ مقدس کو غلاف پہنایا وہ حمیر کا بادشاہ اسعد ابوکرب ہے۔
یہ شخص جب مکہ شریف آیا تو نہایت بردیمانی سے غلاف تیار کراکر ہمراہ لایا اور بھی مختلف اقسام کی سوتی وریشمی چادروں کے پردے ساتھ تھے۔
قریش جب خانہ کعبہ کے متولی ہوئے تو عام چندہ سے ان کا نیا غلاف سالانہ تیار کراکر کعبہ شریف کو پہنانے کا دستور ہوگیا۔
یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی کا زمانہ آیا جو قریش میں بہت ہی سخی اور صاحب ثروت تھا۔
اس نے اعلان کیا کہ ایک سال چندے سے غلاف تیار کیا جائے اور ایک سال میں اکیلا اس کے جملہ اخراجات برداشت کیا کروں گا۔
اسی بناپر اس کا نام عدل قریش پڑگیا۔
حضرت عباس ؓ کی والدہ نبیلہ بنت حرام نے قبل از اسلام ایک غلاف چڑھایا تھا جس کی صورت یہ ہوئی کہ نو عمر بچہ یعنی حضرت عباس ؓ کا بھائی خوار نامی گم ہوگیاتھا۔
اور انہوں نے منت مانی کہ میرا بچہ مل گیا تو کعبہ پر غلاف چڑھاؤں گی۔
چنانچہ ملنے پر انہوں نے اپنی منت پوری کی۔
8ھ میں مکہ دار الاسلام بن گیا اور آنحضرت ﷺ نے یمنی چادر کا غلاف ڈالا۔
آپ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق ؓ نے آپ کی پیروی کی۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں جب مصر فتح ہوگیا تو آپ نے قباطی مصری کا جو کہ بیش قیمت کپڑا ہے بیت اللہ پر غلاف چڑھایا اور سالانہ اس کا اہتمام فرمایا۔
آپ پچھلے سال کا غلاف حاجیوں پر تقسیم فرمادیا کرتے اور نیا غلاف چڑھا دیا کرتے تھے۔
شروع میں حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں بھی یہی عمل رہا۔
ایک دفعہ آپ نے غلاف کعبہ کا کپڑا کسی حائضہ عورت کو پہنے ہوئے دیکھا تو تقسیم کی عادت بدل دی اور قدیم غلاف دفن کیا جانے لگا۔
اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے مشورہ دیا کہ یہ اضاعت مال ہے، اس لیے بہتر ہے کہ پرانا پردہ فروخت کردیا جائے۔
چنانچہ اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم ہونے لگی۔
رفتہ رفتہ بنو شیبہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک بن گئے۔
اکثر سلاطین اسلام کعبہ شریف پر غلاف ڈالنے کو اپنا فخر سمجھتے رہے اور قسم قسم کے قیمتی غلاف سالانہ چڑھاتے رہے ہیں۔
حضرت معاویہؓ کی طرف سے ایک غلاف دیبا کا 10 محرم کو اور دوسرا قباطی کا 29 رمضان کو چڑھا دیا گیاتھا۔
خلیفہ مامون رشید نے اپنے عہد خلافت میں بجائے ایک کے تین غلاف بھیجے۔
جن میں ایک مصری پارچہ کا تھا۔
اور دوسرا سفید دیباکا اور تیسرا سرخ دیبا کا تھا تاکہ پہلا یکم رجب کو اور دوسرا 27 رمضان کو اور تیسرا آٹھویں ذی الحجہ کو بیت اللہ پر چڑھایا جائے۔
خلفائے عباسیہ کو اس کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور سیاہ کپڑا ان کا شعار تھا۔
اس لیے اکثر سیاہ ریشم ہی کا غلاف کعبہ کے لیے تیار ہوتا تھا۔
سلاطین کے علاوہ دیگر امراء واہل ثروت بھی اس خدمت میں حصہ لیتے تھے اور ہر شخص چاہتا تھا کہ میرا غلاف تادیر ملبوس رہے۔
اس لیے اوپر نیچے بہت سے غلاف بیت اللہ پر جمع ہوگئے۔
160ھ میں سلطان مہدی عباسی جب حج کے لیے آئے تو خدام کعبہ نے کہا کہ بیت اللہ پر اتنے غلاف جمع ہوگئے ہیں کہ بنیادوں کو ان کے بوجھ کا تحمل دشوار ہے۔
سلطان نے حکم دے دیا کہ تمام غلاف اتار دئیے جائیں اور آئندہ ایک سے زیادہ غلاف نہ چڑھایا جائے۔
عباسی حکومت جب ختم ہوگئی تو 659 ھ میں شاہ یمن ملک مظفرنے اس خدمت کو انجام دیا۔
اس کے بعد مدت تک خالص یمن سے غلاف آتا رہا اور کبھی شاہان مصر کی شرکت میں مشترکہ۔
خلافت عباسیہ کے بعد شاہان مصر میں سب سے پہلے اس خدمت کا فخر ملک ظاہر بیبرس کو نصیب ہوا۔
پھرشاہان مصر نے مستقل طورپر اس کے اوقاف کردئیے اور غلاف کعبہ سالانہ مصر سے آنے لگا۔
751 ھ میں ملک مجاہد نے چاہا کہ مصری غلاف اتار دیا جائے اور میرے نام کا غلاف چڑھایا جائے مگر شریف مکہ کے ذریعہ جب یہ خبر شاہ مصر کو پہنچی تو ملک مجاہد گرفتار کرلیا گیا۔
کعبہ شریف کو بیرونی غلاف پہنانے کا دستور تو زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے مگر اندرونی غلاف کے متعلق تقی الدین فارسی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ملک ناصر حسن چرکسی نے 761 ھ میں کعبہ کا اندرونی غلاف روانہ کیا تھا۔
جو تخمیناً 817 ھ تک کعبے کے اندر دیواروں پر لٹکارہا۔
اس کے بعد ملک الاشرف ابونصر سیف الدین سلطان مصر نے 825 ھ میں سرخ رنگ کا اندرونی غلاف کعبے کے لیے روانہ کیا۔
آج کل یہ غلاف خود حکومت سعودیہ عربیہ خلدها اللہ تعالیٰ کے زیر اہتمام تیار کرایا جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1594   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1594  
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں کعبہ پر غلاف چڑھانے کا باب قائم فرمایا اور دلیل کے طور پر آپ رحمہ اللہ نے کعبہ کے اندر کے سونے چاندی کا ذکر فرمایا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ووجہہا انہ معلوم أن الملوک فى کل زمان کانوا یتفاخرون بکسوۃ الکعبۃ برفیع الثیاب المنسوجۃ بالذہب وغیرہ کما یتفاخرون بتسبیل الأموال لہا۔۔۔۔۔» [فتح الباری، ج 3، ص: 584]
یعنی اس رو سے یہ معلوم ہے کہ بادشاہ لوگ اپنے اپنے زمانے میں فخر کرتے تھے کعبہ کے غلاف پر جو عمدہ اور سونے چاندی سے بنا ہوا کرتا تھا، جس طرح سے فخر کرتے تھے مالوں پر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کے اندر کے مال جو سونا اور چاندی تھے اسے تقسیم کرنا درست سمجھا تو کعبہ پر غلاف بھی خرچ کرنا درست ٹھہرا اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے جب کعبہ پر لوگ غلاف چڑھائیں، یعنی جب صدقہ کرنا غلاف کا درست ٹھہرا تو بالاولی اسے خرید کر یا بنوا کر کعبہ پر چڑھانا بھی درست ٹھہرا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجہ مناسبۃ حدیث عمر للترجمۃ أن الکعبۃ لم یزل معظمۃ ومقصدًا بالہدایا و الأموال تعظیمًا لہا۔ فالکسوۃ من باب التعظیم لہا أیضًا لما فیہا من تعظیم ذالک فى النفوس و تمیذہا بہ عما سواہا، حدیث مشعر بجواز قسمتہا کغیرہا من أموال المصالح» [مناسبات تراجم البخاری، ص: 60]
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے چھ احتمالات کا ذکر فرماتے ہیں، ایک مناسبت آپ نے یہ دی کہ:
«أنہ یحتمل أن یکون أخذہ من قول عمر رضی اللہ عنہ، لا اخرج حتى اقسم مال الکعبۃ، فالمال یطلق على کل ما یتمول بہ فیدخل فیہ الکسوۃ» [عمدۃ القاری، ج 9، ص: 342]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا کہ آپ نے کہا: کہ میں اس وقت تک نہیں نکلوں گا جب تک کعبہ کا مال تقسیم نہ کر دوں۔ یعنی کعبے کے اندر جو بھی مال ہے اور باہر غلاف ہے سب جب تک تقسیم نہ کر دوں گا یہاں سے نہیں جاؤں گا۔
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شاید امام بخاری رحمہ اللہ کا ارادہ اس حدیث کی طرف ہو جو اپنی عادت کے موافق آپ استنباط فرماتے ہیں، ابن ماجہ میں «مال الکعبۃ» کعبہ کا مال کا بیان موجود ہے جو اسی مسئلے میں داخل ہے اور تائید ہوتی ہے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے کہ آپ نے فرمایا: «وہل لک من مالک إلا ما لبست فأبلیت»، یعنی آپ کا مال وہی ہے جو آپ نے پہنا اور استعمال کر لیا۔ [التوضیح، ج 10، ص: 345]
یعنی امام کو (اختیار ہے) کہ وہ بیت المال کے مصارف کے لیے تجارت کرے یا کسی کو عطا کرے، اور احتجاج پکڑا ہے جس کا ذکر الازرقی نے فرمایا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہر سال کعبہ کا غلاف اتارتے اور اسے تقسیم کرتے حاجیوں پر۔ [اخبار مکۃ للفاکہی، ج 5، ص: 232]
اس تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ غلاف کعبہ بھی ان اموال میں ہے جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیچ کر غریبوں میں تقسیم کرتے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
فائدہ:
بیت اللہ پر غلاف ڈالنے کا رواج بہت قدیم ہے اور یہ کئی ایک دلائل سے ثابت ہے، لیکن اس مسئلہ پر اختلاف ہے کہ سب سے قبل کعبہ کو کس نے غلاف پہنایا تھا؟
① روایت کے مطابق سب سے قبل حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پہنایا تھا۔
② بعض مورخین کا کہنا ہے کہ کعبہ کو غلاف سب سے پہلے حمیر کا بادشاہ اسعد ابوکرب نے پہنایا تھا۔
③ بعض روایات کے مطابق قریش جب خانہ کعبہ کے متولی ہوئے تو عام چندہ سے اس کا نیا غلاف سالانہ تیار کرا کر کعبہ کو پہناتے تھے۔
④ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ نبیلہ بنت حرام نے قبل از اسلام ایک غلاف چڑھایا تھا۔
⑤ سن 8ھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی چادر کا غلاف ڈالا۔
⑥ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی خلاف پہنایا۔
⑦ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب مصر فتح ہوا تو آپ نے قباطی مصری کا - جو کہ بیش قیمت کپڑا ہے - بیت اللہ پر
غلاف چڑھایا۔
⑧ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی عمل رہا۔
⑨ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک غلاف 10 محرم کو اور دوسرا قباطی کا 29 رمضان کو چڑھا دیاگیا۔
⑩ خلیفہ مامون رشید نے اپنے عہد خلافت میں تین خلاف بھیجے۔
⑪ 160ھ میں اس کا بھرپور اہتمام کیا سلطان مہوی عباسی نے کعبہ میں کئی غلاف دیکھے تو آپ نے اسے اتروانے کا حکم دیا اور آئندہ صرف ایک غلاف کی اجازت دی۔
⑫ عباسی حکو مت کے بعد 659ھ میں شاہ یمن ملک مظفر نے اس خدمت کو انجام دیا۔
⑬ کعبہ کے اندرونی حصے میں غلاف کے دستور کو ملک ناصر حسن چرکسی نے 761ھ میں ابتداء کیا۔
⑭ اس کے بعد ملک الاشرف ابونصر سیف الدین سلطان مصر نے 825ھ میں سرخ رنگ کا اندرونی غلاف کعبے کے لیے روانہ کیا۔
⑮ اس کے علاوہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالملک بن مروان کے دور میں بھی غلاف کعبہ کا اہتمام ہوا تھا۔
⑯ نبیلہ بنت حرام ام العباس بن عبدالمطلب سے بھی کعبے پر غلاف چڑھانے کا ذکر ملتا ہے۔
⑰ اب یہ غلاف حکو مت سعودیہ کے زیر اہتمام تیار ہوتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
«أخبار مکۃ و فتوحہا للفاکہی۔»
«المؤتلف و المختلف للدارقطنی۔»
«أخبار مکۃ للازرقی۔»
«التوضیح لابن الملقن۔»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 326   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1594  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ عمر فاروق ؓ نے فرمایا:
میں بیت اللہ کے خزانے مسلمانوں میں تقسیم کر دینا چاہتا ہوں۔
شیبہ ؓ نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ انہوں نے کہا:
آپ کے دونوں ساتھیوں نے یہ کام نہیں کیا۔
اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔
(صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7275)
امام ابن ماجہ نے اس حدیث کا سبب ورود ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ شقیق کے ہاتھ کسی آدمی نے بیت اللہ کے ہدیے کے طور پر چند درہم بھیجے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ میں داخل ہوا تو حضرت شیبہ ؓ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے وہ درہم ان کے حوالے کیے تو انہوں نے پوچھا:
کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا:
نہیں، اگر یہ میرے ہوئے تو میں آپ کے پاس نہ لاتا۔
اس کے بعد شیبہ نے حضرت عمر ؓ کا قصہ بیان کیا۔
(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 3116)
حضرت ابی بن کعب ؓ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے بھی حضرت عمر ؓ کو یہی جواب دیا تھا جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔
(فتح الباري: 576/3) (2)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت غلاف کعبہ کی مشروعیت اور اس کا حکم بیان کیا ہے۔
اس حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ کعبہ شریف ہمیشہ سے محترم رہا ہے۔
لوگ اس کی طرف تحائف بھیجتے تھے۔
ان کا مقصد تعظیم کعبہ ہوتا تھا اور غلاف پہنانا بھی اس کی تعظیم کے لیے ہے، لہذا اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔
ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بیت اللہ کا بہترین غلاف کعبہ دیکھ کر ہی اس کے خزانے تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا ہو، نیز ہر زمانے میں بادشاہان وقت سونے کی تاروں سے بنا ہوا غلاف کعبہ بھیجتے تھے جیسا کہ دیگر اموال اس کے لیے وقف کرتے تھے۔
اس بنا پر امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح مال تقسیم کرنا جائز ہے اسی طرح اگر غلافِ کعبہ سے کچھ بچ جائے تو اسے بھی ضرورت مند مسلمانوں میں تقسیم کرنا جائز ہے۔
حضرت عمر بھی ہر سال غلافِ کعبہ اتار کر حجاج میں تقسیم کر دیتے تھے۔
ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو۔
(عمدةالقاري: 160/7)
بہرحال بیت اللہ کو غلاف پہنانے کا دستور بہت قدیم ہے۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ شریف کو غلاف پہنایا وہ یمن کے حیری قبیلے کا بادشاہ ابو کرب اسعد تبع تھا۔
یہ شخص جب مکہ مکرمہ آیا تو یمن کی تیار کردہ بہترین چادروں کا غلاف ہمراہ لایا، اس کے علاوہ سوتی اور ریشمی پردے بھی اس کے پاس تھے جو اس نے تعظیم کے طور پر بیت اللہ کو پہنائے تھے۔
(فتح الباري: 579/3)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1594