سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
56. باب فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ
باب: جانوروں کو لڑانے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2562
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجھاد 30 (1708)، (تحفة الأشراف: 6431) (ضعیف)» (اس کے راوی ابویحییٰ قتات ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمل سے جانوروں کو تکلیف پہنے گی، اور تکان لاحق ہو گی جو بلا کسی فائدہ کے ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1708)
الأعمش عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 94
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2562 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2562
فوائد ومسائل:
بہ اعتبار سند کے یہ روایت ضعیف ہے۔
مگر بلحاظ معنی بات ایسے ہی ہے۔
کہ یہ عمل کس طرح بھی شرفاء کے لائق نہیں ہے۔
عوام کو بھی اس سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اور جب جانوروں کو لڑانے کی ممانعت ہے۔
تو لوگوں کے درمیان لڑائی کروا دینا تو اور بھی بدترین خصلت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2562
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1708
´جانوروں کو باہم لڑانے، مارنے اور ان کے چہرے پر داغنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1708]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
منع کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس سے جانوروں کو تکلیف اور تکان لاحق ہوگی،
نیز اس کام سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں،
بلکہ یہ عبث اور لایعنی کاموں میں سے ہے۔
نوٹ:
(اس کے راوی ابویحییٰ قتات ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1708