سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
55. باب النَّهْىِ عَنْ لَعْنِ الْبَهِيمَةِ
باب: جانوروں پر لعنت بھیجنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2561
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ، فَسَمِعَ لَعْنَةً فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: هَذِهِ فُلَانَةُ لَعَنَتْ رَاحِلَتَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ضَعُوا عَنْهَا فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ، فَوَضَعُوا عَنْهَا، قَالَ عِمْرَانُ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهَا نَاقَةٌ وَرْقَاءُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، آپ نے لعنت کی آواز سنی تو پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: فلاں عورت ہے جو اپنی سواری پر لعنت کر رہی ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اونٹنی سے کجاوہ اتار لو کیونکہ وہ ملعون ہے ۱؎“، لوگوں نے اس پر سے (کجاوہ) اتار لیا۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر 24 (2595)، (تحفة الأشراف: 10883)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/429، 431)، سنن الدارمی/الاستئذان 45 (2719) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لئے کیا تاکہ جانور کا مالک آئندہ کسی جانور پر لعنت نہ بھیجے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس مالک کے لئے بطور سرزنش تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2595)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2561 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2561
فوائد ومسائل:
لعنت کے لغوی معنی ہیں۔
اللہ کی پھٹکار اور اس کی رحمت سے دوری اور انتہائی یہ بری خصلت ہے کہ انسان ایک چیز سے فائدہ بھی اٹھائے۔
اور پھر اس کے متعلق لعنت کا لفظ بھی استعمال کرے۔
نبی کریم ﷺنے غالبا بطور زجر وتوبیخ کے اس جانور کو اس کے سوار سے آذاد کروادیا تھا۔
تاکہ آئندہ کے لئے کوئی اس طرح سے نہ بولے لوگوں کا آپس میں یہ لفظ استعمال کرنا اور بھی قبیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2561
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6604
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر پر جارہے تھے اور ایک انصاری عورت ایک اونٹنی پر سوار تھی، اس سے اکتا گئی اور اس عورت نے اس پر لعنت بھیجی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو سن لیا، چنانچہ فرمایا:"اس پر جو سازو سامان ہے وہ لے لو اور اس کو چھوڑدو۔ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔"حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، گویا کہ میں اسے بھی لوگوں میں چلتی پھرتی دیکھ رہا ہوں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6604]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ضجرت:
عورت اس کی سست رفتاری سے اکتا گئی۔
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوپاؤں پر لعنت بھیجنے سے منع فرمایا تھا،
لیکن اس کے باوجود،
اس عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت بھیجی تو آپ نے بطور سزا اس عورت کو حکم دیا کہ جب یہ اونٹنی ملعونہ ہے تو پھر اس کو ہمارے ساتھ کیوں لا رہی ہو،
اس کو چھوڑ دو،
" کیونکہ جو چیز اللہ کی رحمت سے محروم ہو،
وہ خیر کا باعث نہیں بن سکتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6604