سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
53. باب فِي الرَّجُلِ يُسَمِّي دَابَّتَهُ
باب: آدمی اپنے جانور کا نام رکھے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 2559
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ.
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا جس کو «عفیر» کہا جاتا تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 46 (2856)، صحیح مسلم/الإیمان 10(30)، سنن الترمذی/الایمان 18 (2643)، (تحفة الأشراف: 11351)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ العلم (5877)، مسند احمد (5/228) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پیچھے سواری پر کسی کو بٹھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ جانور اس دوسرے سوار کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو، اسی طرح جانوروں کا نام بھی رکھا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کا نام «دلدل» اور گھوڑوں میں سے ایک کا نام «سکب» اور ایک کا «بحر» تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق لكن ذكر الحمار شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2856)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2559 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2559
فوائد ومسائل:
جانور کا نام رکھنا مباح ہے۔
2۔
بوقت ضرورت جانور پردو آدمی بھی سوار ہوسکتے ہیں۔
3۔
اگر کسی جانورپر دو آدمی سوار ہوجایئں تو یہ ظلم شمار نہیں ہوگا۔
بشرط یہ کہ جانور صحت مند اور اس قدربوجھ اٹھا سکتا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2559