سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
38. باب فِي الرَّجُلِ الَّذِي يَشْرِي نَفْسَهُ
باب: آدمی اپنی جان اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالے اس کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2536
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَجُلٍ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَانْهَزَمَ يَعْنِي أَصْحَابَهُ، فَعَلِمَ مَا عَلَيْهِ فَرَجَعَ حَتَّى أُهَرِيقَ دَمُهُ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي رَجَعَ رَغْبَةً فِيمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي حَتَّى أُهَرِيقَ دَمُهُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب اس شخص سے خوش ہوتا ہے ۱؎ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، پھر اس کے ساتھی شکست کھا کر (میدان سے) بھاگ گئے اور وہ گناہ کے ڈر سے واپس آ گیا (اور لڑا) یہاں تک کہ وہ قتل کر دیا گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے بندے کو دیکھو میرے ثواب کی رغبت اور میرے عذاب کے ڈر سے لوٹ آیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا گیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9552)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/416) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اللہ تعالی کے لئے صفت تعجب کی صراحت ہے، دوسری حدیث میں ضحک (ہنسنے) کی صفت کا تذکرہ ہے، یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، ذات باری تعالی اور اس کی صفات کی کنہ و کیفیت کی جستجو میں پڑے بغیر تمام ثابت صفات باری تعالی پر ایمان لانا چاہئے، اور کسی مخلوق کی ذات وصفات سے اس کی تشبیہ وتمثیل وتکییف جائز نہیں ہے۔ «ليس كمثله شيء وهو السميع البصير» ”اللہ کے ہم مثل کوئی چیز نہیں اور وہ ذات باری سمیع (سننے والا) اور بصیر (دیکھنے والا ہے)“۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1251)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2536 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2536
فوائد ومسائل:
فوائد ومسائل:۔
سورہ توبہ میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ) (التوبہ۔
111) اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں۔
یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں تو مارتے ہیں۔
اور مارے بھی جاتے ہیں۔
یہ تورات انجیل اور قرآن میں بیان شدہ سچاوعدہ ہے۔
الغرض مسلمان کو اپنے تمام تر اعمال اور احوال میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب کا امید وار اور اس کے عقاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
یہی اصل ایمان اور اس کی چوٹی ہے۔
2۔
اللہ عزوجل کا تعجب کرنا اس طرح اس کی دیگر صفات کی کیفیت ہم جان سکتے ہیں۔
نہ بیان کر سکتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)(الشوریٰ۔
11) اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
بنا بریں یہ صفات الہیٰ ایسی ہیں۔
جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔
ہمیں ان پرایمان رکھنا ہے جیس وہ بیان ہوئیں ہیں۔
ان کی کنہ اور حقیقت جاننے کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
کیونکہ وہ کوئی جان ہی نہیں سکتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2536