سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
33. باب فِي الرَّجُلِ يَغْزُو وَأَبَوَاهُ كَارِهَانِ
باب: ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2530
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ دَرَّاجًا أَبَا السَّمْحِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ فَقَالَ:" هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ، قَالَ: أَبَوَايَ، قَالَ: أَذِنَا لَكَ، قَالَ: لَا، قَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ وَإِلَّا فَبِرَّهُمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے ہجرت کر کے آیا، آپ نے اس سے فرمایا: ”کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، میرے ماں باپ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے پاس واپس جاؤ اور اجازت لو، اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان دونوں کی خدمت کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4051)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/76) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
دراج عند أبي الھيثم حسن الحديث (أضواء المصابيح: 222 بتحقيقي) وانظر الحديث السابق (2529)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2530 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2530
فوائد ومسائل:
نفلی جہاد میں والدین کی اجازت ضروری ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ملاحظہ ہے۔
کہ اسلام نے خاندان اکائی اور ا سے مضبوط کرنے اور رکھنے کی ازحد تلقین کی ہے۔
اس سے نیکی کو فروغ ملتا ہے اور بُرائی کے در بند ہوتے ہیں۔
مگر مغربی تہذیب نے اس بنیادی اکائی اور وحدت کو توڑنے کےلئے افراد کنبہ اور بالغ اولاد کو بالخصوص آزاد روی اور آزاد منشی کا جو سبق دیا ہے۔
اس کے اثرات انتہائی زہریلے ہیں۔
مغرب نے خود تو اس کا انجام دیکھ ہی لیا ہے۔
اور اب اس کا رخ مشرق اور بالخصوص اسلامی معاشروں کی طرف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2530