حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُدَيْلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَعَلَ عَلَيْهِ أَنْ يَعْتَكِفَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَيْلَةً أَوْ يَوْمًا عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اعْتَكِفْ وَصُمْ".
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2474
فوائد ومسائل:
اس روایت میں دن کا ذکر اور روزہ بھی رکھو کا بیان صحیح نہیں ہے۔
کیونکہ یہ روایت صحیح بخاری میں ہے، اس میں دن کا اور روزہ رکھنے کے حکم کا ذکر نہیں ہے۔
(صحيح البخاري‘ الاعتكاف‘ حديث: 2033) بہرحال نیکی کے کام کی نذر خواہ جاہلیت کے دور میں مانی گئی ہو، پوری کرنی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2474
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1187
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت کے زمانہ میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد الحرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” پھر اپنی نذر کو پورا کرو۔“ (بخاری ومسلم) اور بخاری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے۔ پھر انہوں نے ایک رات اعتکاف کیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1187»
تخریج: «أخرجه البخاري، الاعتكاف، باب الاعتكاف ليلًا، حديث:2032، ومسلم، الأيمان، باب نذر الكافر وما يفعل فيه إذا أسلم، حديث:1656.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر نے حالت کفر میں جو نذر مانی ہو‘ اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ غیر شرعی نہ ہو۔
امام بخاری‘ امام ابن جریر رحمہم اللہ اور شوافع کی ایک جماعت کی رائے یہی ہے مگر جمہور کے نزدیک کافر کی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی تو پوری کرنے کا کیا سوال‘ اس لیے انھوں نے اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے۔
بہرحال حدیث کے ظاہر سے پہلی رائے کی تائید ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1187
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3851
´آدمی نذر مانے اور اسے پوری کرنے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو اس کی نذر کے حکم کا بیان۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کی نذر مانی تھی کہ وہ اس میں اعتکاف کریں گے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو ”آپ نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3851]
اردو حاشہ:
یہ نذر نیکی کی تھی‘ اس لیے آپ نے اسے پورا کرنے کا حکم فرمایا ورنہ کفر کے دوران میں احکام واجب نہیں ہوتے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3851
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3853
´آدمی نذر مانے اور اسے پوری کرنے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو اس کی نذر کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت میں (مسجد الحرام میں) ایک دن کا اعتکاف اپنے اوپر واجب کر لیا تھا، انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو ”آپ نے انہیں اس میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔“ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3853]
اردو حاشہ:
ایسی نذر جو کفر کی حالت میں مانی ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ نذر پوری کی جائے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3853
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3325
´زمانہ جاہلیت میں نذر مانی پھر مسلمان ہو گیا تو کیا کرے؟`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد الحرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3325]
فوائد ومسائل:
حق بات کی نذر اگرحالت کفر میں بھی مانی ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3325
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1772
´ایک دن یا ایک رات کے اعتکاف کا حکم۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1772]
اردو حاشہ:
فوائد وم مسائل:
(1)
اعتکاف ایک دن یا ایک رات بھی ہو سکتا ہے۔
(2)
اگر کوئی شخص اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی نیک کام کا ارادہ کرے تو اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کام کر لینا چاہیے البتہ اگر کسی غیر شرعی کام کا ارادہ کیا ہو تو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔
(3)
اللہ کے لئے نذر ماننا عبادت ہے لہٰذا ایسی نذر پوری کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1772
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2129
´نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2129]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نذر چونکہ اللہ کی عبادت ہے اور نیکی ہے اس لیے اسلام قبول کرنے سے پہلے جو نیکی کرنے کا ارادہ کیا تھا نبی اکرمﷺ نے وہ نیکی کرنے کا حکم دیا۔
(2)
حالت کفر میں اگر ایسا کام کرنے کی نذر مانی جائے جو اسلام میں بھی نیکی ہے تو اسلام قبول کرنے کے بعد نذر پوری کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2129
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1539
´نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، (تو اس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1539]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1539
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4294
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام جعرانہ پر سوال کیا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس آئے تھے، کہا، اے اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت کے دور میں مسجد حرام میں ایک دن کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال و رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، ایک دن کا اعتکاف کرو۔“ ابن عمر رضی اللہ تعالی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4294]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فتح مکہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ہوازن سے جنگ حنین شوال 8ھ میں لڑی،
شکست کھانے کے بعد دشمن تتر بتر ہو گیا،
ایک گروہ نے طائف کا رخ کیا،
دوسرا گروہ اوطاس کی طرف چلا گیا،
اور تیسرا گروہ نخلہ کی طرف بھاگ گیا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے بیوی بچوں کو جن کی تعداد چھ ہزار تھی،
قیدی بنا لیا،
مویشیوں میں چوبیس ہزار اونٹ اور چالیس ہزار سے زائد بکریاں قبضہ میں لے لیں،
اور چار ہزار اوقیہ چاندی ہاتھ لگی،
ان تمام اشیاء کو جعرانہ مقام میں جمع کیا گیا،
اور آپﷺ نے طائف کا رخ کیا،
کیونکہ دشمن کا بڑا گروہ ادھر ہی گیا تھا،
لیکن کچھ عرصہ محاصرہ کرنے کے بعد آپ واپس آ گئے،
اور جعرانہ میں آپﷺ نے بنو ہوازن کا رشتہ داری کی وجہ سے کیونکہ دائی حلیمہ اس قوم کے ایک خاندان سے تعلق رکھتی تھیں،
دو ہفتہ سے زائد انتظار کیا کہ وہ مسلمان ہو جائیں،
اور اپنا مال و دولت اور قیدی واپس لے جائیں،
لیکن جب وہ اس انتظار کے عرصہ میں نہ آئے تو آپ نے مال اور قیدی مسلمانوں میں تقسیم فرما دئیے،
غنیمت کی تقسیم کے بعد،
بنو ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،
اور انتہائی موثر انداز میں اپنے قیدی اور مال واپس لینے کی درخواست کی،
آپﷺ نے فرمایا،
غنیمت کی تقسیم کے بعد قیدی اور مال دونوں کی واپسی ممکن نہیں ہے،
ایک چیز لے لو،
انہوں نے قیدیوں کی واپسی کی خواہش کی تو آپﷺ نے تمام صحابہ کو جمع کر کے اس سلسلہ میں خطبہ ارشاد فرمایا،
جس کے نتیجہ میں لوگ قیدی چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے،
تو آپﷺ نے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غنیمت کے خمس سے دو لونڈیاں دی تھیں،
انہوں نے ایک اپنے بیٹے ابن عمر کو دے دی اور دوسری اپنے پاس رکھی،
جب آپﷺ نے قیدیوں کی آزادی کا اعلان فرمایا،
تو دونوں باپ بیٹا نے اپنی اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے الرحیق المختوم)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4294
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2032
2032. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے نبی ﷺ سے عرض کیا: میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنی نذر پوری کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2032]
حدیث حاشیہ:
نذر نیاز جوخالصاً للہ ہو اور امر جائز کے لیے جائز طور پر مانی گئی ہو اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔
اعتکاف بھی ایسے امور میں داخل ہے اگر کوئی غلط نذر مانے جیسا کہ ایک شخص نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذ رمانی تھی۔
آپ ﷺ نے اسے باطل قرار دیا۔
اس طرح دیگر غلط نذر منت بھی توڑی جانی ضروری ہے۔
غیر اللہ کے لیے کوئی نذر منت ماننا شرک میں داخل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2032
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4320
4320. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم غزوہ حنین سے واپس آئے تو حضرت عمر ؓ نے نبی ﷺ سے اپنی ایک نذر کے متعلق پوچھا جو انہوں نے اعتکاف کے متعلق زمانہ جاہلیت میں مانی تھی۔ نبی ﷺ نے انہیں اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس روایت کو کچھ حضرات نے حماد سے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے۔ اور اس روایت کو جریر بن حازم اور حماد بن سلمہ نے بھی ایوب سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر ؓ نے اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4320]
حدیث حاشیہ:
حضرت نافع بن سمر جلیس حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے آزاد کردہ ہیں۔
حدیث کے فن میں سند اور حجت ہیں۔
امام مالک فرماتے ہیں کہ جب بھی میں نافع سے ابن عمرؓ کی حدیث سن لیتا ہوں تو پھر کسی اور راوی سے سننے کی مجھے ضرورت نہیں رہتی۔
118 ھ میں وفات پائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4320
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2032
2032. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے نبی ﷺ سے عرض کیا: میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنی نذر پوری کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2032]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری کی اس روایت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اعتکاف روزے کے بغیر صحیح ہے کیونکہ رات روزے کا محل نہیں۔
اگر روزہ شرط ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت عمر ؓ کو حکم دیتے کہ روزہ رکھ کر اعتکاف کریں، لیکن اس روایت سے صرف رات کے وقت اعتکاف کرنے کا استدلال محل نظر ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4294(1656)
ابن حبان نے کہا ہے:
دونوں روایات صحیح ہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ نے ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔
جس نے رات کا ذکر کیا اس نے ضمناً دن کا ارادہ کیا ہے اور جس نے صرف دن کا ذکر کیا ہے اس کے ذہن میں رات کا ذکر ہے کیونکہ رات دن کے تابع ہوتی ہے۔
(2)
بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ ان پر اعتکاف ہے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اعتکاف کریں اور روزہ رکھیں۔
لیکن یہ روایت عبداللہ بن بدیل راوی کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔
(فتح الباري: 349/4)
البتہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے بعد مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کیا تھا۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2042)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک رات سے زیادہ اعتکاف نہیں کیا اور اس اعتکاف میں روزہ بھی نہیں تھا۔
(فتح الباري: 349/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2032
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2042
2042. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے انھیں فرمایا؛ ”اپنی نذر پوری کرلو۔“ تب انھوں نے ایک رات اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2042]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو ایک رات کا اعتکاف کرنے کی اجازت دی اور رات روزے کا محل نہیں، البتہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ اعتکاف کریں اور روزہ رکھیں لیکن یہ روایات قابل حجت نہیں ہیں کیونکہ ان میں عبداللہ بن بدیل نامی ایک راوی ضعیف ہے۔
(فتح الباري: 349/4)
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے صرف ایک رات کا اعتکاف کیا۔
رات کا روزہ شریعت میں منع ہے۔
(2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رات کا روزہ منع نہیں تھا۔
لیکن یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ حضرت عمر ؓ نے غزوۂ حنین سے لوٹتے وقت آپ سے عرض کی تھی اور اس وقت رات کے روزے کی ممانعت آ چکی تھی۔
(فتح الباري: 348/4)
البتہ حضرت عائشہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔
(سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2473) (3)
ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف جائز ہے لیکن روزے کے ساتھ اعتکاف کرنا افضل ہے۔
یاد رہے! اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص رمضان کا روزہ تو استطاعت کے باوجود نہ رکھے اور اعتکاف کر لے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص رمضان کے علاوہ اعتکاف کرتا ہے یا رمضان میں روزے کی ہمت نہیں رکھتا تو اس کے لیے جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2042
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2043
2043. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2043]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسلام لانے کے بعد فتح مکہ سے پہلے نذر مانی تھی، لیکن یہ خیال مبنی بر حقیقت نہیں کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا بلکہ سنن دارقطنی کی روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے شرک کے زمانے میں اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔
(فتح الباري: 348/4) (2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب:
إذا نذر أو حلف أن لا يكلم إنساناً في الجاهيلة ثم أسلم)
”جب انسان دور جاہلیت میں نذر مانے یا کسی سے کلام نہ کرنے کی قسم اٹھائے، پھر مسلمان ہو جائے۔
“ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، باب: 29) (3)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
نذر اور قسم دور جاہلیت میں بھی منعقد ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو دور جاہلیت کی نذر پوری کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمر نے اس نذر کے مطابق عمل کیا۔
اس کے متعلقہ مباحث "کتاب الایمان والنذور" میں بیان ہوں گی۔
(فتح الباري: 361/4)
بإذن اللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2043
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4320
4320. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم غزوہ حنین سے واپس آئے تو حضرت عمر ؓ نے نبی ﷺ سے اپنی ایک نذر کے متعلق پوچھا جو انہوں نے اعتکاف کے متعلق زمانہ جاہلیت میں مانی تھی۔ نبی ﷺ نے انہیں اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس روایت کو کچھ حضرات نے حماد سے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے۔ اور اس روایت کو جریر بن حازم اور حماد بن سلمہ نے بھی ایوب سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر ؓ نے اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4320]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تو حضرت عمر ؓ کو بھی اپنی دور جاہلیت کی نذر کا خیال آیا تو اس کے متعلق سوال کیا چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل روایت میں ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف سے واپس جعرانہ آئے تو حضرت عمر ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے دور جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک دن کا اعتکاف کروں گا، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جائیں اور ایک دن مسجد احرام میں اعتکاف کرلیں۔
" حضرت ابن عمر ؓ نے مزید فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے خمس سے حضرت عمر ؓ کو ایک لونڈی دی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو آزاد کردیا تو حضرت عمر ؓ نے ان کا شور و غل سنا کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آزاد کردیا ہے حضرت عمر ؓ نے ابن عمر ؓ سے فرمایا:
جاؤ اور اس لونڈی کو بھی آزاد کردو۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4294۔
(1656)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔
کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے کس بنا پر مذکورہ حدیث کو غزوہ حنین میں بیان کیا ہے کیونکہ اس میں غزوہ حنین سے ملنے والی ایک لونڈی کا ذکر ہے جسے عمر فاروق ؒ نے آزاد کردیا تھا واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 45/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4320
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6697
6697. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6697]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں جاہلیت سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے کا زمانہ ہے کیونکہ ہر شخص کی جاہلیت اس کے اسلام کے اعتبار سے ہے۔
بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا زمانۂ جاہلیت مراد نہیں ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(من نذر وهو مشرك ثم اسلم)
”جس نے بحالت شرک نذر مانی پھر مسلمان ہو گیا۔
“ یہ عنوان مقصد کے ادا کرنے میں زیادہ واضح ہے۔
غزوۂ حنین سے واپس ہوتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ سوال کیا تھا جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4320) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانۂ جاہلیت کی نذر کو پورا کرنا ضروری ہے۔
زمانۂ کفروشرک نذر پوری کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
بہرحال نذر طاعت کا پورا کرنا ضروری ہے، خواہ وہ زمانۂ کفروشرک ہی میں کیوں نہ مانی گئی ہو۔
(3)
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ حنین میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی تقسیم کے بعد مسجد حرام میں اعتکاف بیٹھے تھے جیسا کہ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی ہے۔
(فتح الباري: 709/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6697