سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
78. باب الاِعْتِكَافِ
باب: اعتکاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 2462
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ"، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول وفات تک رہا، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاعتکاف 1 (2026)، صحیح مسلم/الاعتکاف 1 (1172)، سنن الترمذی/الصوم 71 (790)، (تحفة الأشراف: 16538)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/69، 92، 279) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2026) صحيح مسلم (1172)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2462 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2462
فوائد ومسائل:
(1) اعتکاف کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کے ساتھ پابند ہو جانا یا کہیں بند رہنا۔
اور شرعی اصطلاح میں: رب ذوالجلال کی عبادت کے لیے انسان کا اپنے آپ کو کسی مسجد میں پابند کر لینا، اعتکاف کہلاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا مشروع، مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہے۔
قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے: (وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ) (البقرة: 125) ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
دوسری آیت میں فرمایا: (وَلَا تُبَـٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ) (البقرہ:187) اور جب تک تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو، عورتوں سے ملاپ نہ کرو۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بستی والوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اعتکاف بیٹھے، یہ محض وہم ہے۔
اس کی کوئی شرعی اصلیت نہیں ہے۔
جب تک کوئی اپنے اوپر لازم نہ کرلے، یہ واجب نہیں ہوتا۔
(2) خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہین بشرطیکہ شوہر اجازت دے۔
اور عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ مسجد ہی ہے، نہ کہ گھر۔
تاہم یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں پردے اور حفاظت کا خاطر خواہ انتطام ہو۔
جس مسجد میں ایسا انتظام نہ ہو، وہاں عورتوں کا اعتکاف بیٹھنا بھی صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح گھروں میں اعتکاف بیٹھنا بھی غیر صحیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2462
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 570
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھتے اور پھر اعتکاف کی جگہ داخل ہو جاتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 570]
570 فائدہ:
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کا اہتمام کیا اور آپ کے بعد ازواج مطہرات بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔ [سبلا السلام] ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 570
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 790
´اعتکاف کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ اور عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف ۱؎ کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 790]
اردو حاشہ:
1؎:
اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کر لینے کے ہیں،
اور شرعی اصطلاح میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھنے کو اعتکاف کہتے ہیں،
اعتکاف سنت ہے،
رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا ہے اور آپ کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 790
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2783
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2783]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
اعتکاف کا لغوی معنی رکنا،
ٹھہرنا اور پابندی کرنا ہے،
لیکن شرعی طور پر انسان کا مخصوص انداز میں عبادت کے لیےمسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے اور یہ بالاتفاق سنت ہے اور رمضان کے آخری عشرے میں ہو گا اور فقہی طور پر کچھ وقت کے لیے عبادت کی نیت سے مسجد میں بیٹھنا بھی اعتکاف ہے،
ظاہر ہے آپ سے دس دن سے کم اعتکاف ثابت نہیں ہے۔
2۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
اور جمہورعلماء کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے اور ظاہر ہے اگر اعتکاف رمضان میں ہے تو روزہ رکھنا ہو گا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے،
کیونکہ اعتکاف کے لیے رمضان شرط نہیں ہے۔
آپ نے شوال میں اعتکاف کیا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔
3۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کے نزدیک اعتکاف کے لیے مرد اور عورت کے لیے مسجد شرط ہے اور احناف کے نزدیک عورت گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے گی،
حالانکہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھتی تھیں،
گھر میں اعتکاف کرنا ان سے ثابت نہیں ہے،
تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت صرف اس صورت میں مسجد میں اعتکاف کرے گی،
جبکہ اس کے لیے پردہ کا صحیح انتظام ہو اورعورتوں اور مردوں کے اختلاط کا اندیشہ نہ ہو اور اس کی عصمت وپاکدامنی کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو اور یہ کسی بدنیتی پر مبنی نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2783
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2026
2026. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2026]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں اضافہ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے شاگرد حضرت نافع کو مسجد نبوی میں اس جگہ کی نشاندہی کرتے تھے جہاں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الاعتکاف، حدیث: 2781(1171)
اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے ”توبہ کے ستون“ کے پیچھے چارپائی بچھا دی جاتی یا بستر لگا دیا جاتا۔
(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1774) (2)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسجد میں کیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عمل منسوخ بھی نہیں ہوا کیونکہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔
اعتکاف کرنا آپ کی خصوصیت بھی نہیں کیونکہ ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کے بعد اس پر عمل کیا۔
اس میں کسی کو شک نہیں کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔
(فتح الباري: 346/4)
بہرحال اعتکاف کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔
(3)
مسجد میں اعتکاف کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں ہے۔
جو حضرات خواتین کے لیے گھر میں اعتکاف کرنے کی گنجائش نکالتے ہیں یہ درست نہیں۔
ہمارا موقف ہے کہ خواتین بھی مسجد ہی میں اعتکاف کریں بشرطیکہ خاوند یا سرپرست کی اجازت سے ہو اور وہاں چادر، چار دیواری مجروح ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
گھر میں اعتکاف کرنے کو عبادت کے لیے خلوت گزینی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے اعتکاف کا نام دینا محل نظر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2026