سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
69. باب فِي صَوْمِ الثَّلاَثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ
باب: ہر مہینے تین روزے رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2450
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَصُومُ يَعْنِي مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے شروع میں تین دن روزے رکھتے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصوم 41 (742)، سنن ابن ماجہ/ المناسک 37 (1275)، (تحفة الأشراف: 9206)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/406) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (2058)
أخرجه الترمذي (742 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2450 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2450
فوائد ومسائل:
ایام بیض کی فضیلت ثابت ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات بلا تعیین و تخصیص تین روزے رکھا کرتے تھے، تاکہ وجوب نہ سمجھا جائے۔
اس طرح بعض دفعہ آپ مہینے کی ابتدا میں تین روزے رکھتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علم میں آپ کے یہی ابتدائی دن آئے، چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق بیان کر دیا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم میں آپ کے ایام بیض کے روزے تھے جو آپ اکثر رکھا کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےاس کے مطابق بیان کر دیا۔
اس لیے ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2450
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2370
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے ابتدائی تین دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ جمعہ کے دن روزہ سے نہ رہے ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2370]
اردو حاشہ:
(1) ”شروع سے“ یعنی کسی مہینے میں۔ اور بعض اوقات درمیان سے تین دن روزہ رکھتے تھے اور کبھی آخر مہینے سے بھی رکھ لیتے تھے۔
(2) ”جمعۃ المبارک کے دن۔“ یعنی جمعرات سمیت، ورنہ اکیلے جمعے کے روزے سے تو آپ نے منع فرمایا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1985، وصحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1144) جمعرات کا روزہ آپ کا معمول تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2370