Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
68. باب فِي صَوْمِ يَوْمٍ وَفِطْرِ يَوْمٍ
باب: ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن چھوڑ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2448
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، وَمُسَدَّدٌ، وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ أَحْمَدَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرًا، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ، سَمِعَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى صِيَامُ دَاوُدَ، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى صَلَاةُ دَاوُدَ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَهُ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ، وَكَانَ يُفْطِرُ يَوْمًا وَيَصُومُ يَوْمًا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں، اور پسندیدہ نماز بھی داود کی نماز ہے: وہ آدھی رات تک سوتے، اور تہائی رات تک قیام کرتے (تہجد پڑھتے)، پھر رات کا چھٹا حصہ سوتے، اور ایک دن روزہ نہ رکھتے، ایک دن رکھتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/قیام اللیل 7 (1131)، صحیح مسلم/الصیام 35 (1159)، سنن النسائی/الصیام 40 (2346)، سنن ابن ماجہ/الصیام 31 (1712)، (تحفة الأشراف: 8897)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/206)، دی/ الصوم (42 (1793) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1131) صحيح مسلم (1159)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2448 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2448  
فوائد ومسائل:
رات کی نماز کی یہ کیفیت انتہائی مناسب ہے۔
اس میں اللہ کے حق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حق نفس کا بھی لحاظ ہے۔
مثلا اگر رات کو آٹھ گھنٹے کی سمجھا جائے تو پہلے چار گھنٹے نیند ہوئی، پھر دو گھنٹے چالیس منٹ تہجد۔
بعد ازاں پھر ایک گھنٹہ بیس منٹ کے لیے نیند اور راحت ہے۔
ایسے ہی روزے میں ہے۔
اس فضیلت کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین و توجیہ افضل و اعلیٰ ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2448   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976  
´ہمیشہ روزہ رکھنا`
«. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .»
. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976]
فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے:
«محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.»
محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔
{أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!»

مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے،
اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے:
ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎

جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎

امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔
------------------
۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92]
۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 132   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1631  
´اللہ کے نبی داود علیہ السلام کی نماز (تہجد) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، وہ آدھی رات تک سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے، پھر چھٹے حصہ میں سو جاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1631]
1631۔ اردو حاشیہ:
➊ حدیث نمبر 1617 کا فائدہ نمبر 1 دیکھیے۔
➋ قیام اللیل پر دوام مستحب امر ہے۔
➌ افضل طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ اس سے افضل کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ مقدار میں مسنون طریقے سے زیادہ مشقت میں اس سے کراں ہی کیوں نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1631   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2346  
´اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل کو روزوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ روزے داود علیہ السلام کے تھے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے، اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نماز بھی داود علیہ السلام کی نماز تھی، وہ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات قیام کرتے تھے، اور رات کے چھٹویں حصہ میں پھر سوتے تھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2346]
اردو حاشہ:
سب سے زیادہ پسندیدہ۔ کیونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے اور نماز میں اعتدال تھا۔ جس سے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی فرق نہ آتا تھا۔ اگر کوئی شخص اعتدال سے ہٹ جائے گا، مثلاً وہ ان سے زیادہ روزے رکھے گا یا ہمیشہ ساری رات قیام کرے گا تو حقوق العباد کا مجرم ہوگا، بلکہ وہ اپنے نفس کا بھی مجرم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس اعتدال سے بڑھنے کی اجازت نہیں دی بلکہ راوی حدیث صحابی رضی اللہ عنہ کو صراحتاً فرمایا کہ اس سے افضل روزے ممکن نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2346   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2390  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزوں میں سب سے افضل داود علیہ السلام کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے، اور ایک دن افطار کرتے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2390]
اردو حاشہ:
کہا گیا ہے کہ پابندی کے لحاظ سے یہ سخت ترین روزے ہیں مگر حضرت داؤدعلیہ السلام بڑے طاقت والے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2390   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2391  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
مجاہد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے والد نے میری شادی ایک اچھے خاندان والی عورت سے کر دی، چنانچہ وہ اس کے پاس آتے، اور اس سے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھتے، تو (ایک دن) اس نے کہا: یہ بہترین آدمی ہیں ایسے آدمی ہیں کہ جب سے میں ان کے پاس آئی ہوں، انہوں نے نہ ہمارا بستر روندا ہے اور نہ ہم سے بغل گیر ہوئے ہیں، عمرو بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2391]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت میں سوال اور جواب کی ترتیب صحیح نہیں۔ کسی راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس نے یوں مخل اختصار کر دیا ہے۔ آئندہ روایات سے صحیح ترتیب معلوم ہو رہی ہے۔
(2) پہلو تلاش نہیں کیا۔ یعنی کبھی خاوند بیوی والا تعلق قائم نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے، اس لیے توجہ بیوی کی طرف نہ گئی۔ والد محترم نے خود توجہ دلانے کے بجائے رسول اللہﷺ سے رجوع کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2391   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2392  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے میری شادی ایک عورت سے کر دی، وہ اس سے ملاقات کے لیے آئے، تو اس سے پوچھا: تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے کہا: کیا ہی بہترین آدمی ہیں نہ رات میں سوتے ہیں اور نہ دن میں کھاتے پیتے ہیں، ۱؎ تو انہوں نے مجھے سخت سست کہا اور بولے: میں نے تیری شادی ایک مسلمان لڑکی سے کی ہے، اور تو اسے چھوڑے رکھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2392]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں بھی راوی نے اختصار کیا ہے۔ اسی روایت کی دوسری اسانید سے مروی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بار بار اصرار کرنے پر رسول اللہﷺ ایک ماہ، پچیس دن، پھر بیس، پندرہ، دس، سات، پانچ سے گزرتے ہوئے تین دن پر آگئے تھے، یعنی تین راتوں میں قرآن ختم کر لیا کر۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں دی تاکہ صحیح تلفظ، توجہ اور حضور قلب سے اسے پڑھا جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2393  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں داخل ہوئے اور فرمایا: کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم ایسا ہرگز نہ کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، روزہ سے بھی رہو اور کھاؤ پیو بھی، کیونکہ تمہاری آن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2393]
اردو حاشہ:
(1) تجھ پر حق ہے۔ لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق دے۔ آنکھ کا حق نیند، جسم کا حق آرام و خوراک، بیوی کا حق اس کے ساتھ شب بسری، مہمان کا حق مہمان نوازی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا، دوست کا حق اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا وغیرہ ہے۔
(2) تیری عمر لمبی ہوگی۔ اور بڑی عمر میں زیادہ عبادت کو قائم نہ رکھ سکے گا، لہٰذا اتنی عبادت شروع کر جسے قائم رکھ سکے۔ مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جوانی اور عبادت کے جوش میں سمجھ نہ سکے اور آخر عمرمیں تنگ ہوئے جسے وہ سختی ڈالنے سے تعبیر فرما رہے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2393   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2394  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا کہ میں کہتا ہوں کہ میں جب تک زندہ رہوں گا ہمیشہ رات کو قیام کروں گا، اور دن کو روزہ رکھا کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! جی ہاں میں نے یہ بات کہی ہے، آپ نے فرمایا: تم ایسا نہیں ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2394]
اردو حاشہ:
میں وہ تین روزے ہی قبول کر لیتا۔ یہ سوچ انھیں بڑھاپے میں آئی جب اس قدر سخت عبادت کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا، مگر وہ جاری شدہ نیکی کو ختم کرنے یا کم کرنے کو بھی مناسب نہ سمجھتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2394   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2395  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا۔ میں نے عرض کیا: چچا جان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے جو کہا تھا اسے مجھ سے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! میں نے پختہ عزم کر لیا تھا کہ میں اللہ کی عبادت کے لیے بھرپور کوشش کروں گا یہاں تک کہ میں نے کہہ دیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، اور ہر روز دن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2395]
اردو حاشہ:
بھاگتے نہ تھے۔ یہ دو اضافی صفات بیان فرمائیں جن کے ساتھ حضرت داؤد علیہ السلام متصف تھے۔ باوجود اس قدر روزے دار ہونے کے بہت زیادہ قوت کے مالک تھے۔ ﴿وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الأيْدِ﴾ (ص 38: 17)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2395   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2396  
´روزہ میں زیادتی و کمی کا بیان اور اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ایک دن روزہ رکھ تمہیں باقی دنوں کا ثواب ملے گا۔‏‏‏‏ انہوں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: دو دن روزہ رکھ تمہیں باقی دنوں کا اجر ملے گا، انہوں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تین دن روزہ رکھو اور باقی دنوں کا ثوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2396]
اردو حاشہ:
ایک روزہ رکھ۔ اگر پورے مہینے میں ایک روزہ مراد ہے، پھر یہ کسی راوی کی غلطی ہے کیونکہ کسی دوسری روایت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اور اگر دس دن میں سے ایک دن کا روزہ مراد ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے تو پھر یہ درست ہے کیونکہ ایک روزے کا ثواب دس کے برابر ہے اور یہی مفہوم صحیح ہے۔ سوال اور جواب کی ترتیب بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2396   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2397  
´روزہ میں زیادتی و کمی کا بیان اور اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ہر دس دن پر ایک دن روزہ رکھو، تمہیں ان باقی نو دنوں کا اجر و ثواب ملے گا، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہر نو دن پر ایک دن روزہ رکھو اور تمہیں ان آٹھ دنوں کا بھی ثواب ملے گا، میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
دس دن میں ایک دن کا روزہ بھی اتنا ہی ثواب رکھتا ہے جتنا دو دن میں ایک دن کا مگر روزے کے اور بھی تو فوائد ہیں۔ مشقت کا اجر بھی تو روزے کے ثواب سے الگ ملتا ہے۔ ظاہر ہے تین روزوں سے پندرہ روزوں کی مشقت بہر صورت زیادہ ہے، البتہ ایک ماہ میں پندرہ سے زائد روزے رکھنے کی مستقل عادت بنا لینا درست نہیں کیونکہ اس میں نقصانات ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2397   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2401  
´مہینے میں دس دن کا روزہ اور اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: عبداللہ بن عمرو! تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات میں کرتے ہو، جب تم ایسا کرو گے تو آنکھیں اندر کو دھنس جائیں گی اور نفس تھک جائے گا، جو ہمیشہ روزہ رہے گا اس کا روزہ نہ ہو گا، ہر مہینے میں تین دن کا روزہ پورے سال کے روزہ کے برابر ہے، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2401]
اردو حاشہ:
روزے سے انسانی جسم کے غیر ضروری اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں جس سے انسان جفا کش بن جاتا ہے۔ قوت برداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھوک، پیاس، تکلیف اور مشقت برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اخلاقی وروحانی طور پر انسان قوی ہو جاتا ہے۔ اور جنگ میں انھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ بلاناغہ روزہ انسان کو کمزور اور عاجز کر دیتا ہے، لہٰذا وہ جائز نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2401   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2427  
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2427]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین عمل میں انتہائی خفیف اور اجر میں بہت عظیم ہے، مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت زیادہ کی حریص تھی، اس لیے زیادہ کی اجازت طلب کرتے رہے، مگر جب بڑھاپے میں کمزور ہو گئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کر لیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1159)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2427   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1706  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کو با لکل ثواب نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1706   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1712  
´داود علیہ السلام کے روزے کا بیان۔`
عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، آپ آدھی رات سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سو رہتے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1712]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نفلی عبا دات کی مقدار کم بیش ہو سکتی ہے آدمی چاہے تو زیا دہ نوا فل ادا کر ے چاہے تو کم رکعتیں پڑھ لے اس طرح چاہے زیادہ روزے رکھے چاہے کم رکھ لے البتہ ان امور سے اجتناب کرے جن سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے-
(2)
حضرت داؤد علیہ السلام  کے انداز پر نفلی روزے رکھنا سب سے افضل ہے اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسے زیادہ نفلی روزے رکھنے سے ثواب کم ہو جا ئے گا۔

(3)
حضرت داؤد علیہ السلام والے روزے اس لئے افضل ہیں کہ اس طریقے سے انسا ن کو جسم کا اہل و عیا ل کا اور دوسرے لو گو ں کا وہ حق ادا کر نے کا بھی مو قع مل جا تا ہے جو ہمیشہ روزے رکھنے کی صورت میں ادا نہیں کیا جا سکتا اور اللہ کی عبا دت کر کے ثواب بھی حا صل ہو جا تا اور ایک لحا ظ سے دائمی عمل بھی بن جا تا ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے
(4)
نماز تہجد رات کے کسی حصے میں ادا کی جا سکتی ہے تا ہم مذکورہ بالا صورت افضل ہے کیونکہ اس میں بھی جسم کے حق اور اللہ کے حق کا ایک خو بصورت توازن مو جود ہے
(5)
  داؤد علیہ السلام والی نماز کی صورت یہ ہے مثلاً ایک رات با رہ گھنٹے کی ہو تو اس میں چھ گھنٹے آرام کیا جا ئے پھر اٹھ کر چار گھنٹے نماز تہجد اور عبا دت میں گزارے جا ئیں پھر دو گھنٹے تک آ رام کر لیا جا ئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1712   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2736  
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ بن عمرو! تم روزانہ روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو اور تم جب ایسا کرتے رہو گے تو تمھاری آنکھیں اندر دھنس جائیں گی اور کمزور ہو جائیں گی جس نے ہر دن روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا ہر ماہ تین روزہ رکھنا پورے ماہ کے روزے رکھنا ہے میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو داؤدی روزے رکھو،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2736]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
هجمت:
اندر دھنس جائے گی،
(2)
نَهكت:
کمزور پڑ جائے گی۔
(3)
نُهكت:
تم کمزور اور لاغر ہو جاؤ گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2736   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1978  
1978. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے انھیں فرمایا: مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح سلسلہ کلام جاری رہا، آخر کار آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔ نیز آپ نےفرمایا: ہر مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح گفتگو چلتی رہی حتیٰ کہ آ پ نے فرمایا: تین دن میں ختم کرلیا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1978]
حدیث حاشیہ:
امام مسلم کی روایت میں یوں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ایک مہینے میں ایک ختم قرآن کا کیا کر۔
میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا بیس دن میں ختم کیا کر، میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا دس دن میں ختم کیا کر۔
میں نے کہا، مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اچھا سات دن میں ختم کیا کر۔
اور اس سے زیادہ مت پڑھ۔
(یعنی سات دن سے کم میں ختم نہ کر)
اسی لیے اکثر علماءنے سات دن سے کم میں قرآن کا ختم کرنا مکروہ رکھا ہے۔
قسطلانی نے کہا میں نے بیت المقدس میں ایک بوڑھے کو دیکھا جس کو ابوالطاہر کہتے تھے وہ رات میں قرآن کے آٹھ ختم کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔
مترجم کہتا ہے یہ خلافت سنت ہے۔
عمدہ یہی ہے کہ قرآن مجید کو سمجھ سمجھ کر چالیس دن میں ختم کیا جائے انتہاءیہ ہے کہ تین دن میں ختم ہو۔
اس سے کم میں جو قرآن ختم کرے گا گویا اس نے گھاس کاٹی ہے إلا ماشاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1978   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1979  
1979. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم سارا سال روزے رکھتے ہو اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ایسا کرنے سے آنکھوں میں گڑھے پڑجائیں گے اور جان کمزور ہوجائےگی۔ جس نے ہمیشہ کے روزے رکھے اس نے گویا روزے نہیں رکھے۔ ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لینا اس سے زمانے بھر کے روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: حضرت داود ؑ کے روزوں جیسے روزے رکھو۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اس کے باجود جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1979]
حدیث حاشیہ:
شاعر مبالغہ کے عادی ہوتے ہیں جو احتیاط ثقاہت کے منافی ہے، اس لیے ابوعباس مکی کے متعلق یہ توضیح کی گئی کہ وہ شاعر ہونے کے باوجود انتہائی ثقہ تھے اور ان کے متعلق کوئی اتہام نہ تھا، لہٰذا ان کی روایات سب قابل قبول ہیں۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
و نقل الترمذي عن بعض أهل العلم أنه أشق الصیام و یأمن مع ذلك غالبا من تفویت الحقوق کما تقدمت الإشارة إلیه فیما تقدم قریبا في حق داود و لا یفر إذا لاقی لأن من أسباب الفرار ضعف الجسد و لا شك إن سرد الصوم ینهکه و علی ذلك یحمل قول ابن مسعود فیما رواہ سعید بن منصور بإسناد صحیح عنه إن قیل له إنك لتقل الصیام فقال إني أخاف أن یضعفني عن القراءة و القراءة أحب إلی من الصیام الخ۔
یعنی ترمذی ؒ نے بعض سے نقل کیا ہے کہ صیام داؤد ؑ اگرچہ مشکل ترین روز ہ ہے مگر اس میں حقوق واجب کے فوت ہونے کا ڈر نہیں جیسا کہ پیچھے داؤد ؑ کے متعلق اشارہ گزر چکا ہے ان کی شان یہ بتلائی گئی کہ اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود وہ جہاد میں دشمن سے مقابلہ کے وقت بھاگتے نہیں تھے۔
یعنی اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود ان کے جسم میں کوئی کمزروی نہ تھی حالانکہ اس طرح روزے رکھنا جسم کو کمزور کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے قول کا بھی یہی مطلب ہے۔
ان سے کہا گیا تھا کہ آپ نفل روزہ کم رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میں کثرت صوم سے اس قدر کمزور نہ ہو جاؤں کہ میری قرات کا سلسلہ رک جائے حالانکہ قرات میرے لیے روزہ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صوم داؤد ؑ بہترین روزہ ہے۔
جو لوگ بکثرت روزہ رکھنے کے خواہش مند ہوں ان کے لیے ان ہی کی اتباع مناسب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1979   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6277  
6277. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے پاس میرے روزہ رکھنے کا ذکر کیا گیا آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کے لیے ایک تکیہ لگایا جو چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ ﷺ زمین پر ہی بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ کے درمیان ویسے ہی پڑا رہا، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے لیے ہر مہینے کے تین روزے کافی نہیں؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (میں زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: چلو پانچ دن رکھ لیا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: سات دن میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: نو دن میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: گیارہ دن کے روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ رکھ سکتا ہوں) رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6277]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گدا بچھا نا اور اس پر بیٹھنا جائز ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6277   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3419  
3419. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہو اور دن کو روزے سے رہتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم ایسا کروگے تو نظر کمزور ہوجائے گی اور جسم نحیف ہوجائے گا۔ تم ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو، یہ سال بھر کے روزے ہیں یا فرمایا کہ سال بھر کے روزوں جیسے ہیں۔ میں نے عرض کیا: میں اپنے اندر طاقت محسوس کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: تم حضرت داود ؑ جیسے روزے رکھو۔ وہ ایک دن روزے سے ہوتے اور ایک دن افطار کرتے تھے لیکن جب وہ دشمن کا مقابلہ کرتے تو (میدان جنگ سے) نہیں بھاگتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3419]
حدیث حاشیہ:
احادیث مذکورہ میں حضرت داؤد کاذکر ہے۔
باب سےیہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3419   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3420  
3420. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اللہ کے ہاں پسندیدہ روزے حضرت داود ؑ کے ر وزے ہیں۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نماز حضرت داود ؑ کی نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور پھر ایک تہائی رات کی عبادت کرتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3420]
حدیث حاشیہ:
حضرت داؤد کا روزہ ہمیشہ روزہ رکھنے سےافضل ہے۔
کیونکہ ہمیشہ روزہ رکھنے میں نفس کو روزے کی عادت ہوجاتی ہے اور عادت کی وجہ سےعبادت کےلیے جومشقت ہونی چاہئے وہ باقی نہیں رہتی۔
حضرت داؤد آدھی رات کےبعد اٹھ کر تہجد پڑھتے، پھر سوجاتے، پھر صبح کی نماز کےلیے اٹھتے۔
یہ اور زیادہ مشکل اورنفس پر زیادہ شاق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3420   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5052  
5052. سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد گرامی نے میرا نکاح ایک خاندانی عورت سے کر دیا اور وہ ہمیشہ اپنی بہو کی خبر گیری کرتے رہتے اور اس سے اس کے شوہر (اپنے بیٹے) کا حال دریافت کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر اچھا آدمی ہے البتہ جب سے میں اس کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم نہیں رکھا اور کبھی میرے کپڑے ہی میں ہاتھ ڈالا ہے۔ جب بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تو میرے والد گرامی نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ چنانچہ اس کے بعد میں نےآپ ﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے دریافت فرمایا: تم روزے کیسے رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہر روز روزے سے ہوتا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟ میں نے عرض کی: ہر رات قرآن مجید ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر مہینے میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5052]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ختم قرآن کی مدتوں کا بیان ہے، باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5052   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1976  
1976. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو میری اس بات کی اطلاع دی گئی کہ میں نے قسم کھارکھی ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں گا دن کو روزہ رکھوں گا اور رات بھر نماز پڑھتا رہوں گا۔ میں نے آپ سے عرض کیا: میرے والدین آپ پر فدا ہوں!میں نے یہ بات کہی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لیے روزہ رکھو اور افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کرو، نیز ہر مہینے میں تین روزے رکھو کیونکہ ہر نیکی کا دس گنا ثواب ملتا ہے اور ایسا کرناعمر بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور دو دون افطار کرو۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو، یہ حضرت داود ؑ کے روزے ہیں اور یہ افضل روزے ہیں۔ میں نے عرض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1976]
حدیث حاشیہ:
(1)
صیام دہر اور صیام وصال میں فرق یہ ہے کہ جو کوئی روزے رکھے اور درمیانی راتوں میں افطار نہ کرے وہ صیام وصال ہیں اور جو رات کو افطار کر دے اور ہمیشہ روزے رکھے وہ صیام دہر ہیں۔
ایسے شخص کو صائم الدہر کہا جاتا ہے۔
شریعت نے اس قسم کے روزے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1979)
حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے گویا نہ تو روزہ رکھا اور نہ افطار ہی کیا۔
(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1705) (2)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تین آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی عبادت کو اپنے لیے کم خیال کیا۔
ان میں سے ایک نے کہا:
میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی ترک نہیں کروں گا۔
جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو فرمایا:
میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5063) (3)
جو شخص روزمرہ کے روزے کا عادی ہو جائے تو اس سے روزے کی وہ مشقت ختم ہو جاتی ہے جس پر اس کا ثواب مرتب ہوتا ہے، عبادت تو وہی ہے جو عادت کے خلاف ہو، چنانچہ حضرت عمر ؓ کو ایک ایسے آدمی کے متعلق معلوم ہوا جو ہمیشہ روزے رکھتا تھا، آپ اس پر درہ لہرایا اور فرمایا:
اے دہری! کھا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 78/3)
روایات میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابو نعیم ہمیشہ روزے رکھتے تھے۔
حضرت عمرو بن میمون نے کہا:
اگر اصحاب محمد ﷺ اسے دیکھ لیتے تو اسے پتھر مار مار کر ختم کر دیتے۔
(فتح الباري: 282/4)
معلوم ہوا کہ ہمیشہ بلا ناغہ روزے رکھنا مستحسن اقدام نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1976   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1978  
1978. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے انھیں فرمایا: مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح سلسلہ کلام جاری رہا، آخر کار آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔ نیز آپ نےفرمایا: ہر مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح گفتگو چلتی رہی حتیٰ کہ آ پ نے فرمایا: تین دن میں ختم کرلیا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1978]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں اختصار ہے۔
امام مسلم ؒ نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے سے رہتے اور ایک رات میں قرآن ختم کر لیتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں مہینے میں تین دن، پھر چھ دن، پھر نو دن بالآخر بارہ دن روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کا اصرار تھا کہ میں اس سے زیادہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔
آپ نے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن روزہ افطار کرنے کا حکم دیا، اور اسے افضل قرار دیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2730(1159)
اسی طرح ایک رات میں قرآن ختم کرنے کی شرعی حیثیت کی تفصیل "فضائل القرآن" میں بیان ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1978   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1980  
1980. حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: مجھے ابو ملیح نے بتایا کہ میں تیرے باپ کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس گیا۔ انھوں نے ہم سے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں میرے روزوں کا تذکرہ ہوا تو آپ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے آپ کے لیے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ بچھادیا۔ آپ زمین پر بیٹھ گئے۔ اس بنا پر تکیہ میرے اورآپ کےدرمیان رہا۔ آپ نےفرمایا: کیا تمھیں ہر مہینے میں تین روزے کافی نہیں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ!آپ نے فرمایا: پانچ روزے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: سات روزے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: نوروزے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: گیارہ روزے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابوداود ؑ کے روزوں میں سےکوئی روزہ افضل نہیں جو نصف سال کے روزے رکھتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1980]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس سے پہلے ایک دن کا روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا اسے مستقل عنوان کے تحت بیان کیا تاکہ اس کے افضل ہونے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔
اور اب صوم داود کو الگ عنوان سے بیان کیا تاکہ سیدنا داود ؑ کی اس سلسلے میں اقتدا کی جائے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
میرے بھائی حضرت داود ؑ بھی اسی طرح روزے رکھتے تھے'' (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2747(1162) (2)
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اسے افضل الصیام قرار دیا ہے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2742(1159)
سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے:
یہ روزے اعدل الصیام ہیں۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
حضرت داود علیہ السلام اس قدر روزے رکھنے کے باوجود، جب کبھی دشمن سے ان کا مقابلہ ہوتا تو آپ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور کسی صورت میں راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2395)
سنن نسائی کی روایت میں ہے:
جب حضرت داود ؑ وعدہ کرتے تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2395) (3)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی، اپنی امت پر شفقت اور مہربانی کی وضاحت ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں صحابۂ کرام ؓ کی اکثریت مالی وسعت نہ رکھتی تھی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چمڑے کا تکیہ بچھانے پر اکتفا کیا جبکہ صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ پر جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
(4)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک اعمال اور دیگر اوراد و وظائف کی خبر دینا جائز ہے بشرطیکہ نمودونمائش اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو۔
(عمدةالقاري: 201/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1980   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3419  
3419. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہو اور دن کو روزے سے رہتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم ایسا کروگے تو نظر کمزور ہوجائے گی اور جسم نحیف ہوجائے گا۔ تم ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو، یہ سال بھر کے روزے ہیں یا فرمایا کہ سال بھر کے روزوں جیسے ہیں۔ میں نے عرض کیا: میں اپنے اندر طاقت محسوس کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: تم حضرت داود ؑ جیسے روزے رکھو۔ وہ ایک دن روزے سے ہوتے اور ایک دن افطار کرتے تھے لیکن جب وہ دشمن کا مقابلہ کرتے تو (میدان جنگ سے) نہیں بھاگتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3419]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں حضرت داود ؑ کے متعلق صراحت ہے کہ وہ عبارت گزار اور شب بیدار تھے۔
ان کی عبادت و ریاضت اور انابت الی اللہ کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ہمارے بندے داؤد کو بھی یاد کریں بلا شبہ وہ صاحب قوت اور بہت رجوع کرنے والے تھے۔
(ص: 38۔
17)

اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنی سریلی آواز دی تھی کہ جب وہ اللہ کی حمدو ثنا کے ترانے گاتے تو ساری فضا مسحور ہو جاتی ارد گرد پرندے جمع ہو جاتے اور وہ بھی آپ کے ہم نوا بن جاتے اور پہاڑوں سے بھی ان نغموں کی آواز آتی تھی۔
مندرجہ ذیل احادیث میں ان کے روزے کی تعریف کی گئی ہے وہ روزوں کا اس قدر اہتمام کرنے کے باوجود دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے اور کبھی راہ افراراختیار نہ کرتے تھے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3419   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3420  
3420. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اللہ کے ہاں پسندیدہ روزے حضرت داود ؑ کے ر وزے ہیں۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نماز حضرت داود ؑ کی نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور پھر ایک تہائی رات کی عبادت کرتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3420]
حدیث حاشیہ:

حضرت داؤد ؒ کا روزہ، ہمیشہ روزہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ ہمیشہ روزہ رکھنے میں نفس کو روزے کی عادت ہوجاتی ہے اور عادت کی وجہ سے عبادت کے لیے جو مشقت ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی، نیز ایسا کرنے سے کمزوری ہوجاتی ہے جو میدان جنگ میں جم کرمقابلہ کرے میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

حضرت داؤد ؑ کی نماز اس طرح ہوتی کہ آپ آدھی رات کے بعد اٹھ کرتہجد پڑھتے پھر سوجاتے، اس کے بعد نمازفجر کے لیے بیدار ہوتے ایسا کرنا زیادہ مشکل اور نفس پرشاق ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد ؑ کا روزہ اور آپ کی نماز پسند تھی جیسا کہ اس حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3420   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5052  
5052. سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے والد گرامی نے میرا نکاح ایک خاندانی عورت سے کر دیا اور وہ ہمیشہ اپنی بہو کی خبر گیری کرتے رہتے اور اس سے اس کے شوہر (اپنے بیٹے) کا حال دریافت کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر اچھا آدمی ہے البتہ جب سے میں اس کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم نہیں رکھا اور کبھی میرے کپڑے ہی میں ہاتھ ڈالا ہے۔ جب بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تو میرے والد گرامی نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ چنانچہ اس کے بعد میں نےآپ ﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے دریافت فرمایا: تم روزے کیسے رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہر روز روزے سے ہوتا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟ میں نے عرض کی: ہر رات قرآن مجید ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر مہینے میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5052]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے تین رات کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن نہیں سمجھا۔
(سنن أبي داود، شهد رمضان، حدیث: 1390)
ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
قرآن سات دن میں ختم کرو اور تین دن سے کم مدت میں تو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
(سنن سعید بن منصور، التفسیر، حدیث: 143)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 2466)

اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ ختم قرآن کے لیے مدت کی کوئی حد مقرر نہیں بلکہ یہ مختلف احوال و مختلف اشخاص پر موقوف ہے۔
جو شخص تدبر سے پڑھنا چاہے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اتنی مدت میں ختم کرے کہ اصل مقصود یعنی تدبر و تفکر متاثر نہ ہو۔
اور جو شخص اہم معاملات یا مصالح میں مشغول ہے اس کے لیے اسی قدر مستحب ہے کہ مہمات دین میں خلل نہ آئے ہاں اگر کسی کو اہم مصروفیات نہیں ہے تو جس قدر زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکتا ہو پڑھ لے یہاں تک کہ اکتا نہ جائے اور اسے تیز تیز پڑھنے سے بھی بچے۔
(فتح الباري: 121/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5052