Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
66. باب مَا رُوِيَ أَنَّ عَاشُورَاءَ الْيَوْمُ التَّاسِعُ
باب: (محرم کی) نویں تاریخ کے (بھی) عاشوراء ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2446
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ غَلَّابٍ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ عُمَرَ، جَمِيعًا الْمَعْنَى عَنْ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: أَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ. فَسَأَلْتُهُ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ:" إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ التَّاسِعِ فَأَصْبِحْ صَائِمًا". فَقُلْتُ: كَذَا كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ؟ فَقَالَ: كَذَلِكَ كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ.
حکم بن الاعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت وہ مسجد الحرام میں اپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے، میں نے عاشوراء کے روزے سے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا: جب تم محرم کا چاند دیکھو تو گنتے رہو اور نویں تاریخ آنے پر روزہ رکھو، میں نے پوچھا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح روزہ رکھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: (ہاں) محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح روزہ رکھتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصیام 20 (1133)، سنن الترمذی/الصوم 50 (754)، (تحفة الأشراف: 5412)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/239، 246، 280، 344، 360) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث میں ہے آئندہ سال آیا نہیں کہ آپ وفات پا گئے اور اس حدیث میں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح (نو محرم کا) روزہ رکھتے تھے بات صحیح یہی ہے کہ نو کے روزہ رکھنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع نہیں ملا، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس بنا پر کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سے روزہ رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا، نیز قولا اس کا حکم بھی دیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1133)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2446 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2446  
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا تو نویں تاریخ کا روزہ نہیں رکھا، مگر آپ کا عزم یہی تھا۔
اسی پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
اور مطلوب بھی یہی ہے کہ نویں دسویں یا دسویں گیارھویں کا روزہ رکھا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2446   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2664  
حکم بن اعرج رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا جبکہ وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کو سرہانہ (تکیہ) بنائے ہوئے تھے تو میں نے ان سے پوچھا، مجھے عاشورہ کے روزے کے بارے میں بتائیے تو انھوں نے جواب دیا جب محرم کا چاند دیکھ لو تو اس کو گنتے رہو اور نویں دن کی صبح روزہ کی حالت میں کرو۔ میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا روزہ ایسے ہی رکھتے تھے؟ انھوں نے کہا، ہاں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2664]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال،
اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو نوویں (9)
تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا،
جیساکہ آگے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت آ رہی ہے،
اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں،
ایک یہ کہ آئندہ ہم دسویں محرم کی بجائے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھا کریں گے،
دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا بھی روزہ رکھا کریں گے تاکہ ہمارے اور یہود ونصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہو جائے اور مشابہت ختم ہو جائے اور مسند احمد کی روایت سے اسی دوسرے نص کو ترجیح حاصل ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت بھی کرو اور ایک دن قبل یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
جمہور امت کا اس معنی پر اتفاق ہے اگرچہ اس دور کے بعض علماء کا خیال ہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہودونصاریٰ کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا،
اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال پیدا نہیں ہوتا اورلہٰذا فی زماننا رفع تشابه کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنا ضروری نہیں ہے۔
طحاوی کی روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا،
یہود کی مخالفت کرو اور نویں،
دسویں دونوں کا روزہ رکھو۔
(فتح المہلم ص 145،
ج۔
3)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2664